کراچی کی سیاسی یتیمی

آمروں اور جابروں کے خلاف ہر صدا پر لبیک کہنے والے کراچی کو تین دہائیوں پہلے جو نظر لگی آج تک اس شہر کے زخم مندمل نہیں ہوسکے۔ آمر کی کوکھ سے جنم لینے والی عصبیت نے کراچی کو بہت زخم دیے، اردو بولنے والوں کو اپنے ہی ہم وطن بھائیوں سے لڑایا گیا۔ مینڈیٹ کا دم بھرنے والوں نے شہر کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو لاشوں کا تحفہ ضرور دیا اور وہ لوگ بھی کتنے سادہ کہ پھر اس ہی جانب رخ کرتے جہاں سے لاشے آئے تھے۔
مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم کرنے کا بہانہ بناکر ایک بار پھر  عصبیت کے مرتے جن میں روح پھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیاقت آباد کے فلائی اوور پر جلسے اور  کراچی پریس کلب کے ٹیرس پر کی گئی پریس کانفرنس میں نئی سیاسی تاریخ لکھے جانے کی بات کی گئی لیکن دیکھنے والے دیکھ رہے  ہیں کہ ایک بار پھر اہل کراچی کو سیاسی یتیم بنانے کی تیاری ہے۔ لندن والے کا زور توڑنے کے بعد نادیدہ قوتوں نے نیا بغل بچہ یا بچے تیار کرلیے ہیں۔
فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال نے ایک ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھنے اور کراچی کو اس کے حقوق دینے کے وعدے تو کیے لیکن کراچی والے جانتے ہیں کہ تیس، بتیس سال میں اُن کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔ آج بات کی جارہی ہے کہ مردم شماری میں شہر کی آبادی کم دکھائی گئی، اِس کے نتائج مبینہ طور پر غلط پیش کیے گئے، لیاقت آباد کے جلسے میں فاروق ستار نے کہاکہ کراچی میں ڈیڑھ کروڑ آبادی کی فیملی پلاننگ کردی گئی۔۔ شہر کو مالیاتی دھچکہ پہنچانے کی سازش کی گئی، وغیرہ۔۔ ابھی اس الزام کی تصدیق ہونا باقی ہے لیکن فاروق ستار صاحب آج دعوے کرتے ہیں کہ وہ مل کر کراچی کو اس کے حقوق دلائیں گے لیکن پہلے یہ بتایا جائے کہ اُن کی جماعت نے تیس بتیس برس تک اپنے بھاری (جعلی) مینڈیٹ کا دعویٰ کیا اور شہر کو کیا دیا؟ کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندے پانی کے نکاس کا ادھڑا ہوا نظام، صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی جیسے مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟آج گلی محلے کچرے کے ڈھیر سے بھرے ہیں، چھوٹی سڑکیں ہوں یا اہم شاہراہیں، گندہ پانی جگہ، جگہ اور بعض مقامات پر ندی نالوں کی طرح بہتا نظر آتا ہے۔
کراچی پریس کلب میں فاروق ستار نے انہوں نے ایک بار پھر اپنے پرانے ساتھی مصطفیٰ کمال کو گلے لگایا  اور کراچی میں بہتری  لانے کے لیے  باتیں  کیں ۔ اسی دوران  چند روز پرانی خبر میرے سامنے آگئی کہ مصطفی کمال جب فاروق ستار کے حمایت یافتہ ناظم کراچی تھے تو انہوں نے محمود آباد میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کی ساٹھ ایکڑ سے زیادہ زمین پر ایک ہزار دو سو مکانوں کے غیر قانونی الاٹمنٹ دیے۔ آج  شہر کو اس کے بنیادی حقوق کی فراہمی کا دعویٰ کرنے والوں پر یہ سنگین الزام بھی ہے کہ ماضی میں اُنہوں نے کراچی کی زمین پر قبضے کیے، چائنا کٹنگ کی، پارک کی زمینوں پر اپنے غیر قانونی  دفاتر بنائے، کھیلوں کے میدان برباد کیے اور دکانیں تعمیر کرادیں۔ اس کا حساب کون دے گا؟
یہی نہیں فاروق ستار کو آج یہ فکر بھی کھائی جارہی ہے کہ  آج کل کے نوجوان بگڑ گئے ہیں، جامعہ کراچی میں کچھ روز پہلے یوتھ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس پریشانی کا ذکر کیا کہ لڑکے رات بھر موبائل فون کے پیکجز استعمال کرتے ہیں اور صبح نوکری کی تلاش میں ناکام رہتے تھے۔ فاروق ستار کی پریشانی بجا لیکن انہوں نے معاملے کا ایک رخ ہی کانفرنس میں پیش کیا۔
کراچی کے جو نوجوان گٹکے، میم پوری، بدمعاشی  اور دیگر برائیوں کا شکار ہوئے وہ کس وجہ سے اس راہ پر نکلے؟ اُنہیں کس چیز نے یہ سب کرنے پر مجبور کیا؟ کیا معاملات تھے جو کراچی کے نوجوانوں کو کن کٹا، کانا، مادھوری یا کالیا جیسی شناخت ملی؟ کس نے تیس، بتیس برس کے دوران نوجوانوں کو بھتہ خور، ٹارگٹ کلر، اسٹریٹ کرمنل بننے پر مجبور کیا؟ وہ کون سی خود ساختہ فکری نشستیں تھیں جس نے سندھ کے شہری نوجوانوں کو اپنے ہی ہم وطنوں سے نفرت پر اُبھارا؟ اُن کے خلاف اسلحہ اُٹھانے کا جواز پیش کیا؟ نوجوانوں کی ذہن سازی اس طرح کی گئی کہ وہ اپنے ہی والدین، بھائی،  بہنوں سے دور ہوگئے اور جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے کے نعرے کو عملی شکل دینے لگے۔
آج فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال شہر کو اس کا جائز حق دلانے اور مہاجروں کو جائز مقام دلانے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی جماعت نے تین دہائی تک اس شہر پر حکمرانی کی آج کس طرح وہ کراچی کو اس کا کھویا ہوا مقام دلائیں گے؟ کیا پھر لسانی تعصب کا کارڈ تو نہیں کھیلا جائے گا؟ کیا پھر حقوق کی فراہمی کے نام پر اردو بولنے والوں کا استحصال تو نہیں کیا جائے گا؟ اگلے انتخابات سے پہلے اس شہر کے باسیوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ کہیں ان کے ساتھ پھر کوئی گیم تو نہیں کھیلا جارہا؟ کیا پھر وہ سیاسی یتیم تو نہیں بنائے جارہے؟
حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں