میں بھی خاموش ہوں

میں بھی خاموش ہوں

 وہ بھی خاموش ہے

خاموشی  میں ہے اک طلاطم بپا

کھویا کھویا سا ہے اعتمادِ وفا

میں بھی خاموش ہوں

وہ بھی خاموش ہے

بیتے لمحوں کا آینئہ بھی دھُندلا گیا

پھر فسانہ یہ کیسے عیاں ہو گیا

میں بھی خاموش ہوں

وہ بھی خاموش ہے

کوئی رنگینیاں نظر آتی نہیں

دھڑکنیں  دل کی ہیں اجنبی اجنبی

میں بھی خاموش ہوں

وہ بھی خاموش ہے

تلخیوں کے داغ  دھُولتے  نہیں

دل مچلتا ہے ہونٹ  کھُلتے نہیں

میں بھی خاموش ہوں

وہ بھی خاموش ہے

رنجشیں  زخموں کی صورت بنیں

بد گمانیاں تھیں جو دل میں بسیں

میں بھی خاموش ہوں

وہ بھی خاموش ہے

کیسے  یہ پیچ و خم آگیے ناگہاں

ہمسفر ہمسفر سے ہوا بدگماں

میں بھی خاموش ہوں

وہ بھی خاموش ہے

کوئی بتلایے کس سے ہوئی یہ خطا

زندگی ختم نہ ہو جائے اسطرح

میں بھی خاموش ہوں

وہ بھی خاموش ہے

بابر کو مل گیا اب اک نیا مشغلہ

قلم بولتا ہے بس اب میرا

میں بھی خاموش ہوں

وہ بھی خاموش ہے

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں