بلاگ کیا ہے،کیسے لکھیں؟

لفظ ”بلاگ(Blog)“ ویب لاگ(Web Log) سے بنا ہے۔ بلاگ ایک قسم کی ذاتی ڈائری ہی ہے جو آپ انٹرنیٹ پر لکھتے ہیں۔ ذاتی ڈائری اور بلاگ میں ایک فرق یہ ہے کہ ذاتی ڈائری آپ تک یاچند ایک لوگوں تک محدود ہوتی ہے جبکہ بلاگ پوری دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہوتا ہے۔ جہاں آپ اپنی سوچ اور شوق کے مطابق اپنے خیالات، تجربات اور معلومات لکھتے ہیں اور قارئین سے تبادلہ خیال کرتےہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بلاگ آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ جیسے آپ ہوں گے ویسا ہی آپ کا بلاگ ہو گا۔ اس کے علاوہ جیسے آپ ذاتی ڈائری میں شاعری اور اچھی باتیں لکھتے ہیں اسی طرح بلاگ پر بھی آپ شاعری، اچھی باتیں ، تصاویر اور ویڈیوز شیئرکرسکتےہیں۔ ساری بات کا خلاصہ یہ کہ اگر آپ سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ آپ کو اپنی سوچ اور معلومات دوسروں تک پہنچانی چاہئے تو اس کے لئے بہترین چیز بلاگ ہے۔ آسان الفاظ میں اسی کام کو بلاگنگ کہا جائے گا۔ یاد رہے بلاگ ، ویب سائیٹ کی ہی ایک قسم کا نام ہے۔
بلاگ کئی قسم کے ہوتے ہیں مثلا ڈاکٹر لوگ میڈیکل کے متعلق معلومات کے لئے بلاگ لکھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے لوگ ٹیکنالوجی پر لکھتے ہیں۔ حالات کے ستائے حالات پر لکھتے ہیں، ادیب ادب پر لکھتے ہیں، شاعر شاعری لکھتے ہیں، فوٹو گرافر تصاویر شیئر کرتا ہے تو ویڈیوز کے شیدائی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں۔ حتی کہ جو جو ہوتا ہے وہ بلاگ پر وہی کچھ لکھتا اور شیئر کرتا ہے اور کئی میرے جیسے بھی ہوتے ہیں جو ایک سے زیادہ موضوعات پر لکھنا اور شیئر کرنا پسند کرتے ہیں۔

*******

بلاگ دراصل وارداتِ قلبی کا نام ہے، جس کے مرکزی کردار آپ خود ہوتے ہیں۔ اگر اندازِ بیان واعظانہ کے بجائے دوستانہ ہو تو پڑھنے والے کو احساس ہوتا ہے جیسے کوئی اپنا اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے، کانوں میں سرگوشیاں کر رہا ہے۔ اس طرح وہ قائل بھی ہوتا ہے اور متاثر بھی اور ایک ان دیکھے دھاگے کی کشش میں بلاگ لکھنے والے سے بندھ جاتا ہے۔

اگر آپ یہ بندھن بناسکتے ہیں، تو بلاشبہ آپ میں ایک اچھا بلاگر بننے کی صلاحیت ہے۔

یادش بخیر، استادِ محترم جناب سیّد قاسم محمود نے اپنی جوانی کے زمانے میں ایک افسانہ”لال گرگابی کا جوڑا‘‘ لکھا تھا۔ اور ایک روز انہوں نے مجھے بتایا کہ صرف اس ایک افسانے کی خاطر وہ روزانہ کم از کم دو گھنٹے کے لئے ایک قریبی موچی کی دکان پر بیٹھا کرتے تھے تاکہ اپنے افسانے میں چپلوں کی آپس کی گفتگو کو حقیقت کا رنگ دے سکیں۔

شاید یہ اصول ایک اچھے بلاگ پر بھی صادق آتا ہے کیونکہ کسی افسانہ نگار کی مانند ایک اچھا بلاگر بھی اپنے بلاگ کا خمیر ارد گرد کے معاشرے ہی سے اٹھاتا ہے۔ معاشرے پر نظر جتنی گہری اور ہمہ گیر ہوگی، بلاگ بھی اتنا ہی جاندار، معیاری اور دلوں کو موہ لینے والا ہوگا۔
علیم احمد

*******

بلاگ کا ایکCharacteristic Featureیہ بھی ہے کہ یہ روبوٹک زبان میں نہ ہو۔
اخبار کی سرخیوں سے لے کر کالم نگاروں کے کالم تک ہمیشہ یہی بات دیکھی جاتی ہے کہ لکھنے والا مخاطب نہیں کرتا۔ معلومات، دلائل اور براہین کا تانتا باندھتا ہے جو آنکھ جمنے سے پہلے ٹوٹ جاتا ہے۔
آڈینس جنریشن کا نیا آرڈر اس تصور کو ایک دہائی پہلے ہی منہدم کر چکا ہے۔ اردو میں نہ سہی، انگریزی میں سہی۔ لیکن اتنا ضرور بہت کچھ بدل چکا ہے۔ قلم کار بھی اور قاری بھی اور یہ تبدیلی اپنے پیچھے اپنا مکمل شجرہ نصب رکھتی ہے۔ اپنی سماجی اور نفسیاتی اقدار میں اس کی ایک مکمل تاریخ ہے۔ تحریر کی ہیت جس کی اب ڈیمانڈ ہے وہ ایسی ہونی ضروری ہے کہ اس کا ویلیو پیریڈ کم ہو لیکن ریوینیو جنریٹ کرے۔

*********

بلاگ، نیو لکھنے والوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔بلاگ کسے کہتے ہیں؟، لکھنے والا بلاگر اور لکھی گئی تحریر، کالم، مضمون کو بلاگ کہا جاتا ہے۔ بلاگ لکھنے کا بھی اپنا ایک طرز ہے۔ مگر اس میں تحریر ہی ہوتی ہے جو لکھی جاتی ہے۔ جب اتنے اخبارات اور سہولیات نہیں تھیں تو نئے لکھاری خود ہی کچھ نہ کچھ لکھتے تھے اور پھر وہ اپنا بلاگ کریڈ کرتے اور پھر ویب سائٹ کی طرح خود ہی اس پر اپ ڈیٹ کرتے رہتے تھے۔ تاہم اس وقت ہمارے پاس مختلف سوشل ویب سائٹس موجود ہیں، جو ہمارے بلاگ کی عادت کو پورا کرنے کے لئے ایک اچھا فورم ہے۔ بہت سی ویب سائٹس نے اپنے پاس بلاگ کا ایک سیکشن بنا دیا ہے۔ بس ہمیں اپنی تحریر، یا بلاگ کو لکھنا اور اسے پبلش کے لئے بلاگ پر لگوانا ہے۔

بلاگ لکھنے سے متعلق کچھ معلومات مندرجہ ذیل ہیں جو کہ ایک بلاگ سے کاپی کیے گئے ہیں۔
لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ بلاگ پر لکھیں تو کیا لکھیں اور کہاں سے شروع کریں اس بارے میں میرا خیال ہے کہ بس پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آگے دیگر بلاگز اور قارئین کے تبصرے یا کمنٹس سمجھاتے جاتے ہیں کہ کیا لکھا جائے۔
بلاگنگ شروع کرنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ جو دیکھتے ہیں، جو محسوس کرتے ہیں ان کو سادہ الفاظ کی شکل دیں اور بلاگ لکھ دیں۔ فرض کریں آپ نے کہیں کو حادثہ دیکھا یا کوئی منفرد چیز دیکھی اب آپ اس حادثہ یا منفرد چیز سے کیا نتیجہ نکالتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوا؟اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ اس سے آپ نے اور دوسروں نے کیا اثر لیا وغیرہ وغیرہ سوچیں ۔
اس طرح آہستہ آہستہ آپ کو بلاگ لکھنے کا تجربہ ہوتا جاتا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی شعبہ سے وابستہ ہیں وہ کوشش کریں کہ زیادہ تر اپنے شعبے سے متعلق لکھیں کیونکہ اس سے آپ کی تحریر میں جان بھی ہو گی اور آپ اپنا نقطہ نظر اچھی طرح بیان کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ جہاں تک میرا خیال ہے من گھڑت کہانیوں کی بجائے عام زندگی میں ہونے والے تجربات پر لکھیں۔ اس سے ایک تو آپ کے تجربات اور تجزیے دوسرے لوگوں تک پہنچیں گے اور جب قارئین تبصرے یا رائے دیں گے تو آپ کو تصویر کے کئی دوسرے رخ نظر آئیں گے۔ جس سے آپ کی سوچ مزید پختہ ہو گی۔

چند دیگر مشورے:

جو بھی لکھیں مکمل حوالے اور ٹھوس ثبوت کی بنا پر لکھیں تاکہ اگر کوئی کسی بات پر آپ سے بحث کرے تو آپ تسلی بخش جواب دیں سکیں۔ ہمیشہ مثبت سوچ کا مظاہرہ کریں۔ کبھی یہ نہ سوچیں کہ آپ بڑے تیس مار خاں ہیں کیونکہ آپ کا بلاگ پوری دنیا میں مختلف مقامات پر، مختلف ذہنیت کے لوگ پڑھیں گے جن میں کئی بلکہ بہت زیادہ آپ سے بھی قابل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اگر آپ سیکھنے، سیکھانے اور مشورے کے انداز میں بلاگنگ کریں گے تو آپ کو بے شمار فوائد حاصل ہوں گے اور اگر آپ نے اپنی سوچ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کی تو منہ کی بھی کھانی پڑ سکتی ہے کیونکہ اس دنیا میں صرف آپ ہی ذہین نہیں اور بھی بڑے بڑے لوگ موجود ہیں۔ اس لئے کبھی جارحانہ انداز اختیار نہ کریں۔ مثبت سوچ رکھتے ہوئے مکمل دلائل اور بہتر طریقہ سے اپنا نقطہ نظر بیان کریں اور اگر کوئی جواب میں آپ سے اختلاف کرے تو کم از کم اس کے جواب پر غور ضرور کریں کیونکہ ہو سکتا ہے آپ کسی جگہ غلطی کر رہے ہوں۔

اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ غلطی پر ہیں تو انا کی جنگ میں پڑنے کے بجائے اپنی اصلاح کریں تاکہ آپ مزید بہتر طریقے سے بلاگنگ کر سکیں۔ اگر آپ ذرا سی بھی ”انا“ یا ”میں نہ مانوں“ کے فارمولے پر چلے تو بلاگنگ کے حوالے سے آپ کو اور آپ کی سوچ کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اور اگر آپ کو پورا یقین ہو کہ دوسرا بندہ غلطی پر ہے تو اسے بحث برائے تعمیر کے انداز میں قائل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کامیاب ہو جائیں تو بہت بہتر اور اگر کامیاب نہ ہو سکیں تو بحث کو زیادہ طول نہ دیں بلکہ اس معاملے پر خاموشی اختیار کریں۔ بلاگنگ میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ دنیا رنگ رنگ کی ہے اور ہر کسی کی اپنی ایک سوچ ہے اس لئے لازم نہیں کہ ہر کوئی آپ کی بات سے اتفاق کرے۔ آپ کی بات پر تنقید بھی ہو سکتی ہے اس لئے بلاگنگ کے حوالے سے اپنے اندر برداشت پیدا کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ بلاگنگ کی دنیا میں لڑائی تو کر لیں گے لیکن بلاگنگ کبھی نہیں  کر پائیں گے۔

دنیا متحرک ہے، آج کچھ ہے تو کل کچھ مختلف بھی ہو سکتا ہے۔انسان کی سوچ بھی متحرک ہے۔ اس لئے اپنی تحریر اور سوچ میں لچک رکھیں کیونکہ اگر وقت کی تبدیلی کے ساتھ آپ کی سوچ میں بھی تبدیلی ہو تو یہی لچک آپ کو فائدہ دے گی اور اگر واقعی آپ کی سوچ میں تبدیلی آئے تو اپنا پرانا لکھا سچ ثابت کرنے کے لئے اپنا آج خراب نہ کریں بلکہ اس بات کو تسلیم کریں کہ کل تک میں یہ سوچتا تھا جبکہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ میری سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ویسے بھی سوچ پر جمود کا تالا خرابی پیدا کرتا ہے۔
بلاگ پر کبھی بھی کوئی ایسی ذاتی معلومات شیئر نہ کریں جس سے آپ کو اسی وقت یا آنے والے وقت میں نقصان ہونے کا خدشہ ہو۔ جو بھی لکھیں سوچ سمجھ کر لکھیں۔ یاد رہے آپ کا بلاگ آپ کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ اپنی شخصیت کو دوسروں کے سامنے اچھے انداز میں پیش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اچھا رویہ اختیار کریں۔

عنوان کا چنا تحریر کا عکاس ہوتا ہے:
کسی بھی تحریر کے سب سے پہلے جس حصے پر نظر پڑتی ہے وہ عنوان ہے پھر آغاز کے تین چار جملے ہیں۔ یہ اگر دلچسپ ہوں تو قاری کی دلچسپی بڑھتی ہے اور نظر خود بخود تحریر پر پھسلتی جاتی ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لکھاری اچھی بھلی تحریر لکھ لے گا لیکن جب عنوان کی باری آئے گی تو عجلت میں کوئی بھونڈا سا عنوان ڈال کر جان چھڑانے کی کرے گا۔ حالانکہ جس طرح تحریر لکھتے وقت سوچ بچار کی گئی ، وقت لیا گیا اسی طرح کچھ وقت عنوان تجویز کرتے وقت بھی لینا چاہیے۔ عنوان دیتے وقت اعراب ، ختمہ ، اور پورا پورا فقرہ لکھنے کی عادت سے پرہیز کریں۔ عنوان حتیٰ الامکان مختصر اور معنی خیز ہونا چاہیے۔ یہ قاری کو خود بخود متوجہ کرتا ہے۔

آغاز کے کچھ جملے بہت اہم ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں یہ تحریر کا حساس ترین حصہ ہے۔یہاں اگر آپ نے قاری کو پکڑ لیا تو پکڑ لیا۔ نئے لکھاری کے لئے یہ لکھنا اتنا آسان نہیں۔ میرے نزدیک آپ تحریر کا ڈرافٹ لکھتے وقت بار بار ابتدائیے پر نظر دوڑاتے جائیے۔ آپ کی رائے اپنے ابتدائیے کے متعلق بار بار بدلے گی۔ یہاں تک کہ تحریر کے خاتمے تک اس میں کافی تبدیلی آچکی ہوگی۔ ابتدائیہ کا تعلق ضروری نہیں کہ تحریر کے مرکزی خیال سے ہو۔ لیکن اس میں اتنی جان ضرور ہونی چاہیے کہ یہ قاری کی دلچسپی موضوع سے جوڑے رکھے اور اسے آنے والے اقتباسات کی طرف دھکیلے۔ اردو تحریر میں بہت کم بلاگر ہیں جنہیں اس حصے پر دسترس ہے۔

تحریر کا باقی حصہ موضوع پر منحصر ہے۔ اگر موضوع عمیق اور حساس ہے تو مائیکرو بلاگنگ نہیں چلے گے۔ اگر دلیل پلے نہیں ہے تو کم از کم دلیل گھڑنے کی کوشش تو کریں۔ بات کوصراحت کے ساتھ تفصیلاً بیان کریں۔ اپنی رائے کو گول مول کرکے اگر مگر میں چھپانے کی بجائے نمایاں انداز میں بیان کریں تاکہ تبصرہ نگار جب تنقید کرنے لگے تو آپ کا نقطہ نظر اور استدلال اس کے سامنے رہے۔ قارئین سے رائے لینے سے پہلے اپنا موقف واضح کریں۔

تحریر کے لئے کچھ نکات بنا کر رکھیں۔ حساس موضوع کے لئے ان نکات کو دوران تحریر زیر بحث لائیں۔ پیراگراف یعنی اقتباس کی شکل میں لکھیں۔ اس طرح تحریر میں ایک ترتیب پیدا ہوگی اور قاری  کی توجہ بھی مرکوز رہے گی۔ میرے نزدیک کسی بھی قابل بحث موضوع پر تحریر کا کلائمکس ہونا ضروری ہے۔ کلائمکس کیا ہے اور ایک اچھا کلائمکس کیسے لکھا جاتا ہے یہ ازخود ایک پیچیدہ بحث ہے۔

تحریر کے لئے ضروری نہیں کہ آپ دقیق اور مروجہ اردو ہی پر اصرار کریں۔ ہلکے پھلکے موضوع پر تحریر کو ہلکا پھلکا رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ آپ اپنی تحریر میں علاقائی طرز گفتگو اور لغت لانے کی کوشش کریں۔ اس طرح لوگوں میں فاصلے کم ہوتے ہیں ، مختلف علاقوں میں رہنے والوں کا مزاج اور اطوار سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے جو ظاہر ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کا ایک اہم مقصد بھی ہے۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی کچھ لکھا جاتا ہے چاہے وہ کتاب ہو یا اخبار .. تحریر کی ادارت بہت ضروری ہے۔ میرے نزدیک بلاگرز کو بھی یہ اصول اپنانا چاہیے۔ تحریر کو خام حالت میں یونہی نہیں شائع کردینا چاہیے۔ اپنے ڈرافٹ پر نظر ثانی کریں۔ ہجے اور لغوی اغلاط کے علاوہ جملوں کی ترتیب پر بھی دھیان دیں۔ کئی سینئر بلاگرز کو میں نے لاپرواہی برتتے دیکھاہے۔
انتخاب: عارف جتوئی

حصہ
mm
عارف رمضان جتوئی روزنامہ جسارت میں نیوز سب ایڈیٹر اور نیوز کلیکشن انچارج ہیں ،مضمون و کالم نگاری بھی کرتے ہیں،مختلف رسائل و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔۔کراچی اپڈیٹس ڈاٹ کام کے بلاگ اور میگزین ایڈیٹر بھی ہیں۔

8 تبصرے

  1. میں نے ایک نظم ”عذاب“ کے عنوان سےبھیجی ہے اس کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں کہ اگر قابلِ اشاعت ہے تعکب چھپے گی۔

  2. اسلام علیکم
    میرانام احمدہے آپ کے بلاگ کا موضوع بہت اچھا ہے اور سمھجنے میں کافی مدد ملی ہے. ایک سوال ہے اگر پیسے کمانے ہیں تو صرف انگلش میں ہی لکھنا پڑے گا .اردو میں تو صرف تجربہ ہی حاصل کیاجاسکتا ہے.

  3. تحریر عبیداللہ خمیس

    ضمنی الیکشن کا اختتام

    ضمنی الیکشن کا کھیل اپنے اختتام کو پہنچا رزلٹ وضح ہو گئے امپورٹڈ حکومتی اتحاد کو شرمناک اور واضح شکست ہوئی مقتدر اداروں نے کبھی عوامی جزبات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جمہوریت کے نام پر ہمیشہ سے ڈورے ڈالے گے جب کے ووٹ ڈالنے والی صندوقچیوں میں فنکار اپنی فنکاری سے گمنام ووٹ ڈال کر اپنی رِٹ قائم کرتے رہے اس دفعہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی تقریباً تمام جماعتیں اور تمام مقتدر حلقے عوام کے بڑے بڑے ناموار لیڈر اور ترجمان یکساں تھے اس سب کے باوجود جو نتائج ہمارے سامنے موصول ہوئے تو پاکستان تحریک انصاف عوامی امیدوں پر پوری اترنے والی وہ واحد قومی جماعت ہے
    جس نے بیس میں سے سولہ نشستیں نکالی وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب چیرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف تمام جھوٹے الزامات اور بیانیے جوڑے گے تمام طاقتور ادارے حکومتی امداد میں پیش پیش رہے الیکشن کمیشن نے بھی مسلم لیگ ن کے لیے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا اس کے علاوہ بڑے بڑے نیوز چینلز نے عمران خان کے جلسوں کا مکمل بلیک آوٹ کیا جب کے حکومتی بیانیے کو پوری کوریج دی گی مریم نواز کی کارنرمیٹنگ کو بھی عوامی مقبولیت کہا اور عمران خان کے تاریخی جلسوں کو اگنور کیا عوام کی آواز دُبانے کی کوشش کی گی لیکن عمران خان کا بیانیہ سب کو بہا کر لے گیا جس کے آگے حکومتی رکاوٹیں ریت کی دیوار ثابت ہوئی اہلیان پنجاب نے ثابت کیا کے عوامی طاقت کے آگے حکومتی مشینری زیادہ دیر نہیں ٹہر سکتی عوامی طاقت کے ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی بہترین حکمت عملی اپنائی ہر پولنگ اسٹیشن پر پولیس گردی کے باوجود ڈٹ کے کھڑے رہے اور آخری ووٹ تک پہرا دیا دوسری طرف سخت گرمی اور کچھ علاقوں میں شدید بارش کے باوجود ووٹر باہر نکلا اور سارے تجزیے اور دعوے بدل کر رکھ دیے اور حمزہ سرکار کو شکست فاش دی اس ہار کو لے کر حکومتی اتحاد سخت دباو میں ہے حکومت کے حمایتی تجزیہ نگار اور اینکر پرسن بھی حالیہ رزلٹ کو دیکھ کر شدید پریشان اور حواس باختہ ہیں جب کے الیکشن میں عوامی حمایت کھونے کے بعد تاریخ کی بد ترین شکست ہونے پر وفاقی حکومت نے لوڈ شیڈنگ کو دوبارہ اپنی پوزیشن پر الرٹ کر دیا ہے گھنٹوں لوڈشیڈنگ معمول بن گیا ہے ڈالر نے بھی اونچی آڑان بھر لی ہے جس سے مہنگائی کا شدید طوفان یقینی آئے گا جس کو روکنا موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں وفاقی حکومت عوامی دکھوں کا مدوا کرنے ميں مسلسل ناکام لیکن اپنی مدت پوری کرنے پر بضد اگر یہی حالات رہے تو یاد رکھے عمران خان دو تہائی اکثریت سے آئے گا اور ان سب کو عوامی طاقت سے بہا لے جائے گا کیونکہ اب عوام جاگ گئی ہے اب الزمات سے بات نہیں بنے گی نہ ہی آپ اس عوامی سمندر کو اب آپ وقتی ریلیف دے کر بے وقوف بنا سکتے

جواب چھوڑ دیں