کیا ہم سب ہی بدعنوان ہیں؟

ہمارے ہاں لوٹ مار کی کوئی حد نہیں.لوٹ مار کا بازار  اپنی آب وتاب کے ساتھ ساتھ گرم ہے. کچھ دن قبل فریج کا اسٹیبلائزر خراب ہوگیا. بھائی جان الیکٹرک کی دکان پر ٹھیک کرانے لے کر گئے. تو دکاندار کا کہنا تھا کہ 1500 روپے میں یہ ٹھیک ہوگا. بھائی جان اسٹیبلائزر ہی واپس اٹھا کر گھر لے آئے. اگلے دن وہی اسٹیبلائزر اٹھا کر میں اپنے دوست کے گھر لے گیا جو اس طرح کی الیکٹرانک اشیاء کی خرابی کو درست کرتا بھی ہے. اور بناتا بھی ہے. اس نے وہی اسٹیبلائزر 400 میں ٹھیک کرکے دیا.

آج ابو جان کی ٹیبلٹ لینے میڈیکل اسٹور جانے لگا، تو ساتھ پرچی بھی لی جس پر آخری دفعہ جس میڈیکل اسٹور سے گولیاں خریدی گئی تھی اس نے انکی قیمت درج کر رکھی تھی، جس کے مطابق تمام گولیاں 1685 روپے کی تھی. میں نے پہلی فرصت میں گولیوں کے سامنے لکھی گئی قیمت کو پین سے رگڑ کر چھپا دیا. بعد ازاں وہ پرچی میڈیکل اسٹور والے کو پکڑادی اس نے حساب کتاب کرکے بتایا کہ آپ کے 800 روپے بنے ہیں. میں رقم ادا کی گولیاں لیکر گھر چلا آیا. راستے میں سوچنے لگا اس غریب کا کیا ہوتا ہوگا جو ان ادویات اور ٹیبلٹ کی قیمت بمشکل ادا کرتا ہوگا. اور لوگ کس سفاکی کے ساتھ لوگوں کو لوٹ رہے ہیں.

یاد رکھے ہمارے ہاں ریڑھی والے سے لیکر حکمران سمیت رعایا بلکہ ہر دوسرا شخص کہی نہ کہی کرپشن جیسے ناسور کا حصہ ہے. ہمیں احتساب خود احتسابی کے ساتھ شروع کرنا ہوگا.

اپنی ضمیر کی عدالت میں اپنا احتساب ہم خود کریں تو معاشرے سے کرپشن خاتمہ ہوجائے گا.

 

 

حصہ
mm
سید ثاقب شاہ اپنے قلمی نام ابن شاہ سے بھی لکھتے ہیں،گریجویٹ ہیں۔مانسہرہ کے رہنے والے ہیں لیکن ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں۔

جواب چھوڑ دیں