دینا واڈیا اور نظریاتی جنگ

            قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی تحریک دراصل اسلامی نظام کے احیاء اور مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ میں بیداری کی لہر تھی۔جس نے ایک طرف مسلمانِ ہند کی آزادی کو یقینی بنایا اور سیاسی بنیادوں پر ایک مستحکم اور مضبوط ریاست کی بنیاد رکھی تو دوسری طرف عالمِ اسلام میں موجود مایوسی کے آثار کم کردئے۔

            قائداعظمؒ کی یہ تحریک بلاشبہ نظریاتی بنیادوں پراٹھی اور پھیلتی چلی گئی۔جس کی حمایت میں اس وقت کے دانشور،مفکر،علما کے طبقات نے نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اس تحریک کی حمایت میں موقر جریدے اور اخبارات و رسائل،خطبات و تقاریر اور فتاویٰ جاری کئے اور مسلمانوں کو ہر طرح سے آزادی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی۔

            جن میں سے سر فہرست علامہ محمد اقبال ؒ ہیں جنہوںنے تصور ِپاکستان پیش کر کے مسلمانِ ہند کو واضح روڈ میپ پیش کیا اور اپنے اشعار کے ذریعے نوجوانانِ اسلام کو بیدار کیا۔ان کے علاوہ تاریخ میں شیرِ بنگال مولوی فضل الحق، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر،مولانا شبیر عثمانی ،مولانا مودودی جیسے جید اکابر علما کے نام آتے ہیں جنہوں نے ہر گام تحریک ِ پاکستان کو مہمیز بہم پہنچایا۔

            اس تحریک کے مقابل دوسری طرف بھی نظریاتی جنگ تھی ،جس میں شدھی،سنگھٹن اور ہندی زبان کی تحریکیں بہت مشہور ہوئیں ،جس میں خالصتاََ ہندوانہ  تہذیب کا رنگ بھرا ہوا تھا۔جس نے مسلمانوں اور ہندوؤں میں ایک خلیج حائل کردیا او ر دوقومی نظریہ کو دواور دو چار کی طرح واضح کردیا۔اس کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ سے جب اس نوخیز مملکت کے آئین کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا تھا

                        میں کون ہوتا ہوں اس کا آئین بنانے والا ۔اس کا آئین تو چودہ سوسال پہلے قران کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے

            غرض یہ تحریک مکمل طور پر نظریاتی اور دوقومی نظریہ کی پیداوار تھی۔اور اس میں اسلام اور کفر دو متقابل قوتوں کے طور پر موجود تھے۔لیکن ان تمام کے بیچ ایک ایسی شخصیت بھی موجود

ہیں جوتاریخ میں اپنا انوکھا کردار رکھتی ہیں۔یہ ہیں قائد اعظم ؒ کی اکیلی بیٹی

 ’’دینا واڈیا ‘‘ ۔

            جن کے حوالے سے یہ مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے اباجان کی حکمِ عدولی کرکے ایک پارسی مرد سے شادی کی اور اپنے قائد کے خوابوں کے پاکستان میں سوائے دو دفعہ کے کبھی نہ آسکیں۔قائد اعظم کی عشروں پر محیط سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں انڈیا کی کوکھ سے نووارد پاکستان جس کی شہریت کی تڑپ میں لاکھوں مہاجرین بے سروسامانی کے عالم میں سرحدیں پارکرتے اور نیزوں پر گردنیں لہرا کر اپنی بیداری کا ثبوت دے دے کر پاکستان پہنچتے  اور یہاں کی شہریت حاصل کرتے تھے لیکن ان تمام کے باوجودقائد کی بیٹی کو اپنے ابا کے پاکستان میں کبھی جگہ نہ مل سکی۔

            کیوں کہ وہ قائد کے نظریہ سے متفق نہیں تھی۔

                        یہاں تو سرسے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو

                        کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا

            وہ 2نومبر کو لندن میں 98برس کی عمر میں وفات پاگئی ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں