سر سید احمد خان کا جشن دو صد سالہ اور معصوم سی الجھن.. دوسرا حصہ  

سراحمد خان اور جشن دو  صد سالہ کے حوالے سے گزشتہ مضمون میں ہم نے اپنی ایک معصوم سی الجھن کا تذکرہ کیا تھا ، وہ بھی  اس خیال سے کہ کوئی تو ہو جو  میرے جیسےتاریخ کے طالبعلم کے   ذہن میں اٹھنے والے  سوالات کا جواب دے سکے – مگر مجھے یہ  بھی  معلوم ہے کہ جشن دو صد سالہ کے ہنگاموں اور تعریف و توصیف  کے  ماحول میں کسی کے پاس  اتنا وقت کہاں  ہوگا کہ وہ اس موقع پر ایک لمحے  ٹہر کر اس جانب توجہ دے سکے –
میرے پہلے سوال کی ذیل میں چند اور سوالات ہیں جو پچھلے مضمون میں نہیں آسکے  تھے -اب پیش خدمت ہیں –
پہلے مرحلے پر تو  ایک سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرسید احمد خان  کو حالات کا دھارا تبدیل کرنے والی  شخصیت مانا بھی جائے یا صرف نظر کرلیا  جائے  ؟
کیونکہ مسلہ یہ ہے کہ سر سید احمد خان کی شخصیت  کا بطور  مصلح ( ریفارمر )  پیش کیا جانا اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ  انہوں  نے جو کام کئے وہ ان سے پہلے کسی نے نہ کیے ہوں  – اسی طرح یہ بھی  ایک حقیقت ہے  کہ سر سید احمد خان ہندوستان کے پہلے آدمی نہیں تھے جنھوں نے تعلیمی بیداری اور  تعلیمی نظام میں اصلاحات کی بات کی ہو –  سر سید سے پہلے یہ کام ہندوستان  میں   “راجہ رام  موہن رائے’ کرچکے تھے

  راجہ رام موہن رائے   ( پیدائش 1774  – انتقال 1833)  ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں برصغیر کے ایک بہت بڑا  مصلح ِ قوم،  عربی  و  فارسی کا  عالم  اور   مغربی تمدن کا  پرچارک ۔ بنگال سے تعلق  رکھنے والا یہ   خاندان پانچ پشتوں سے صوبے کے مغل حکمرانوں سے وابستہ تھا۔   موہن رائے نے  قرآن شریف  ،   فقہ  ،   اسلامی دینیات  اور  علم مناظرہ  پر  عبور حاصل کیا ۔  نیز   ارسطو  کے عربی  تراجم  اور  معتزلہ  کی تصانیف کے مطالعے  کا  بھی موقع ملا۔  ، صوفیوں  کی  کتابیں بھی پڑھیں  اور  وحدت الوجود  کے فلسفہ سے اتنا  متاثر ہوا   کہ  بُت پرستی  کی مخالفت  اس کی زندگی  کا  مشن بن گئی۔
رام موہن رائے   کو   برطانوی اقتدار سے سخت نفرت تھی  لیکن  کلکتہ میں قیام کے دوران  جب اس کو انگریزی قوانین  اور  طریقِ حکومت کے مطالعہ  کا  موقع ملا   تو   اس  نے محسوس کرلیا   کہ  غیر ملکی غلامی  کا  طوق  انگریزی تعلیم  اور مغربی علوم کی تحصیل کے بغیر گلے سے  اُتار ا نہیں جاسکتا  ،  لہٰذا  اس   نے انگریزی زبان سیکھی  جس سے واقفیت کے باعث مغربی علم و حکمت  سمجھنے کا موقع ملا   ۔    موہن رائے   پندرہ  برس تک کمپنی سے وابستہ رہا   مگر  1815  میں پنشن لے لی  اور  سارا   وقت سماجی کاموں میں صرف کرنے لگا  ۔  راجہ موہن رائے نے    ہندو  مذہب میں  موجود جاہلانہ رسم و رواج میں اصلاح کی غرض سے   1828 میں  برہمو سماج   کی تنظیم قائم کی   اور  ہندو معاشرے میں  جو  برائیاں پیدا ہوگئی تھیں  ان کے خلاف مہم شروع کردی۔  بالاخر  ” ستی ” کی رسم (جس میں ہندو  بیوہ کو مردہ شوہر  کی چتا  ( جنازےکے ساتھ ہی زندہ جلا دیا جاتا تھا ) کا قانونی طور پر خاتمہ ہوا –
سر سید احمد خان گویا  راجہ رام  موہن رائے  کے” فٹ پرنٹ”  پر چل رہے تھے – فرق صرف یہ تھا کہ راجہ رام موہن داس نے ہندؤں کے لئے کام کیا اور سرسید نے مسلمانوں کے لئے اس جدوجہد کو شروع کیا –
دوسری اہم ترین بات یہ بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ  مسلمانوں میں  دنیوی اور عصری تعلیم سیکھنے کا شعور اور ترغیب  توسب سے پہلے امام غزالیؒ  نے دلائی اور  تیزی سے یلغار کرتے  یونانی خیالات اور فلسفہ باطلہ کا مقابلہ کیا – امام غزالی کے بعد  شاہ عبدا لعزیز نے اس کام کو آگے بڑھایا –
اس لحاظ سے سرسید احمد خان کو عصری علوم  کی ترغیب دلانے والا اولین فرد کہا ہی نہیں جاسکتا –
سر سید احمد خان  کے نزدیک عصری  علوم حاصل کریں’ کا معاملہ  صرف یہ تھا  کہ  کسی  طرح انگریز کو یہ باور کرایا جائے کہ ہر مسلمان ان کا دشمن نہیں  بلکہ خیر خواہ ہے -اور اس نے  اس کام میں عافیت سمجھی ہے کہ انگریز کا دوست بن کر رہے – اس طرح کا کمپرومایئز نگ ( معذ رت خواہانہ رویہ بہرحال نہ تو راجہ موہن  رائے نے اپنایا نہ ہی کسی بھی مسلمان عالم اور سائنس دان  نے –
پھر یہ ما ن لینے میں ہرج ہی کیا  ہے کہ موہن رائے  کی تحریک سے متاثر ہوکر سر سید احمد خان نے بھی موہن رائے کی طرز پر مسلمانوں کے لئے  ریفارمر  بننے کا انتخاب کیا ہوگا  -اور من موہن رائے کی طرح بعد میں سرسید نے مسلمانوں کو انگریز حکمرانوں سے ہم  آہنگ کرنے کی کوشش کی
اسی طرح اس دور میں جب سر سید احمد خان نے یہ کام شروع کیا تب سا ری دنیا کسی نہ کسی اعتبار سے کالونِیکل  سسٹم کے پنجے میں جکڑی ہوئی تھی – کیا ا ن حالات میں ہندوستان کے علاوہ کسی اور علاقے میں  وہاں کا سر سید پیدا ہوا ؟
میں نے تو بہت غور کیا  مجھے ماسوا  ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا کے کوئی ایک فرد ایسا  پڑھنے کو نہیں ملا جس نے ایک ہی قسم کی ابتلاء میں ہونے کے باوجود سرسید جیسی سوچ اپنائی ہو – اور مصطفیٰ پاشا کونسا ریفارمر تھا ؟ -اسلا م دشمنی اور انگریز سے وفاداری کے علاوہ تو کوئی قدر مشترک(سرسید اور مصطفی کمال پاشا)  میں دکھائی نہیں دیتی -البتہ مصطفی کمال پاشا کے بعد ترکی حقیقت میں نشاط ثانیہ کے دور میں داخل ہوا جو اب تک جاری ہے –
کی دوسری نوآبادیوں نے بھی اپنی زبان سے رشتہ توڑ کر فرنگی زبان اپنائی ؟ ہو تو معلومات میں اضافہ ہوجائے گا –
اسی طرح جب میں سر سید احمد خان کو ایک شخصیت کے روپ میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ بھی سوچتا ہوں کہ کیا کوئی شخصیت مثبت عمل پیہم کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے  رد عمل کے نتیجے میں ؟
شخصیت سازی  کا عمل  ہمیشہ ایک مسلسل مثبت جدوجہد کا متقا ضی ہے – جبکہ سر سید احمد خان معذرت کے ساتھ رد عمل کے نتیجے میں سامنے آئے – مسلمانوں کی سلطنت زوال پزیر ہوئی -انگریز نے جبری قبضہ کیا  اور اس کے نتیجے میں مسلمان احساس محرومی  کا شکار ہوئے – اس طرح  ایک عمل کے  ردعمل نے  سر سید جیسی سوچ پیدا کی – اس سوچ کو شخصیت کا نام کیونکر دیا جائے ؟
کیا کیا جائے کہ جب  بھی سر سید احمد خان کو ایک  شخصیت سمجھ کر ان کی پوری زندگی کا اجمالی جائزہ لیتا ہوں تو سر سید کے لڑکپن میں بازاروں اور کوٹھوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں –  آثار الصنادید کی تعریف تو اپنی جگہ  درست  مگر نگاہ بھٹکتی بھٹکا تی    ” اسباب بغاوت ہند ” اور تفسیر قرآن پر بھی جانکلتی ہے –  اس پہلو کو نظر انداز کیا تو جا سکتا ہے مگر دل گوارا نہیں کرتا –
اگر انگریزی ادب کا  اردو ترجمہ اور اردو ادب کو انگریزی میں ترجمہ  کرنے کی” خدما ت عظیمہ  “دیکھتا ہوں تو تعریف کرنے سے پہلےایک لمحے کو  سوچنا پڑتا ہے ہے یہ ترجمے مسلمانوں کی مجبوری تھے یا نووارد انگریز کی ؟
اور پھر مجھے ورینکلر تھیوری کو بھی پڑھنا پڑتا ہے  – جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے  کہ نوآبادیاتی نظام میں ” غلاموں کی زبان ” کا سیکھنا حکمران  غاصب طبقے کے لئے کتنا ضروری ہوتا تھا –
کسی کی ذات کو شخصیت ماننے کے لئے تاریخ ہمیشہ نہایت سفاکی کے ساتھ  اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے – اب  تاریخ کا یہ کلیہ میں اور آپ  تو تبدیل کرنے سے رہے – !

حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں