ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے

اب تولوگ کہتے ہیں ہمیں ہمارے پیارے زندہ نہیں توان کی لاشیں ہی دے دوتاکہ ہمیں صبرآسکے ۔مجھ سے فون پرآمنہ مسعود صاحبہ مخاطب تھیں جوپاکستان میں جبری گمشدگی ،مسئلے کواجاگرکرنے اوراس مسئلے پرآوازبلندکرنے والی باہمت خاتون ہیں۔یہ لاپتہ افرادکی بازیابی اوران کے اہل خانہ کی کونسلنگ کرنے اورانہیں معاشرے کا،کارآمدفردبنانے کی جدوجہدمیں مصروف ہیں۔ یہ ایک تعلیم یافتہ گھریلوخاتون تھیں جیسی پاکستان کی اکثرخواتین ہوتی ہیں،یہ بہت اچھی مصورہ ہیں ۔آج سے 12برس قبل یہ بچوں اور بے پناہ محبت کرنے والے شوہر مسعود جنجوعہ کے ساتھ سب سے پرامن اور محفوظ تصور کیے جانے والے اسلام آباد کے ساتھ واقع راولپنڈی میں رہتی تھیں۔ ایک روز،ان کے شوہرمسعودجنجوعہ گھرسے گئے اورآج تک لوٹ کرنہیں آئے ۔پختون روایات کی امین ،محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے گھرسے پہلی مرتبہ قدم اپنے شوہرکوتلاش کرنے کے لیے نکالاتھامگران کوجلداحساس ہواکہ یہاں توکئی آمنہ اپنے مسعودکوڈھونڈنے کے لیے دربدرکی خاک چھان رہی ہیں۔اسی روز سے وہ ایسے تمام لاچار ، محکوم ،مظلوم، بے سہارااور بے یارومددگار لوگوں کا ارض وطن پر واحد سہارا بن گئیں۔اب ان کی منزل صرف مسعود جنجوعہ کا گھرواپس آجانا نہیں ہے ۔آج وہ ہر لاپتہ فرد کی والدہ، بہن، بیٹی اور بیوی کو اپنے اپنے مسعود سے ملوانے کی تحریک کی سربراہ ہیں۔ آمنہ مسعود صاحبہ بتارہی تھیں25اکتوبرکوڈیڑھ سال بعد40لاپتہ افرادکا کیس سپریم کورٹ کے بینچ نمبرتین میں لگایاگیا۔ یہ کیس جسٹس اعجازافضل کے سامنے پیش کیاجاناتھا۔مگراس روزپیش ہونے والے کیسز کی فہرست میں لاپتہ افراد کانمبرآخری تھا،اس لیے عدالت کاوقت ختم ہوگیااور کیس کی سنوائی کانمبرہی نہیں آیا۔شائدعدالت کے لیے لاپتہ افرادکامسئلہ دیگرمسئلوں سے کم اہم ہوگا؟ آج سے ڈیڑھ سال پہلے لگنے والی پیشی پرمعزز عدالت نے حکم نامہ جاری کیاتھاکہ بیس سے پچیس مقدمات مختلف عدالتوں میں سنے جائیں گے ۔اورلاپتہ افرادکے کیس کی سماعت بغیرکسی رکاوٹ کے جاری رہے گی ۔اس موقع پرعدالت نے بڑی برہمی بھی فرمائی تھی کہ اتنی اہمیت کے حامل کیسز کو2سال کی تاخیرسے کیوں سناجارہاہے ؟اس برہمی کااتنااثرہواکہ پورے ڈیڑھ سال بعدکیس کی سنوائی کی باری آئی۔محترمہ آمنہ مسعود کی طرف سے 750جبری گمشدہ لوگوں کے کیسز 33پٹیشنوں کے ذریعے سپریم کورٹ میں داخل کئے جاچکے ہیں جن میں سے 19مقدمات نے 25اکتوبرکوسناجاناتھا۔مگرعدالت کاوقت ختم ہوگیااورعدالت لاپتہ افرادکے مسئلے سے زیادہ اہم مسائل کوسنتی رہی ۔25اکتوبرکوعدالت میں سنوائی کی امیدلیے پاکستان کے مختلف شہروں سے گمشدہ افرادکے لواحقین اسلام آبادپہنچے تھے ۔جوان، آدھی بیوہ عورتیں معصوم بچوں کوگودمیں لیے آئیں تھیں ،بوڑھی امائیں ہاتھوں میں تسبیاں پڑھتیں اوربوڑھے باپ جوان بیٹوں کی راہ دیکھتے دیکھتے اندھی ہوچکی آنکھوں سے آنسوبہاتے رہے ۔مگرعدالت میں سنوائی کا نمبرنہیں آیااوروقت ختم ہوگیا۔25اکتوبرکی شام کویہ سب سوالی کس دل کے ساتھ اسلام آبادسے گھروں کولوٹے ہونگے ؟آسمان نے ضروران کے دلوں کی آوازسنی ہوگی ،اورفرشتوں نے عرش تک ان کی فریادضرور پہنچائی ہوگی۔ 25اکتوبرکوسنوائی کے لیے رکھے گئے مقدمات میں 2005سے لاپتہ مسعود جنجوعہ جو،راولپنڈی کے کاروباری شخصیت اورتعلیم دان تھے کاکیس شامل تھا۔لاہورکے انجینئرفیصل فرازکاکیس بھی تھاجوکہ 2005سے لاپتہ ہیں۔ملتان کے سعیداحمدکاکیس بھی تھاجو2009سے لاپتہ ہے ۔سعیداحمدکے بارے میں3رہاشدہ افرادبیان حلفی میںیہ بتاچکے ہیں کہ سعیداحمدکہاں ہے اورکس کی تحویل میں ہے۔مگرلاپتہ افرادکاکمیشن اس کے باوجودکچھ کرنے میں ناکام رہاہے ۔لاپتہ افرادکے معاملے میں کسی فردکایہ گواہی دیناکہ اس نے فلاں لاپتہ فردکوکہاں دیکھاتھایہ بہت مشکل کام ہوتاہے ۔کیونکہ لاپتہ افرادمیں سے جواللہ پاک کے حکم سے رہاہوکرواپس اپنے گھروں کوآتے ہیں وہ اس قدرڈرکاشکار ہوتے ہیں کہ وہ کسی سے کوئی بات نہیں کرتے ۔گواہی دیناتودورکی بات ہے ۔ایسے رہاہونے والے افرادکے اہل خانہ اسی پررب کاشکرکرتے نہیں تھکتے،کہ ان کواپنے پیارے کی لاش نہیں ملی بلکہ خودمل گیاہے۔ ایسے میں لوگ کسی دوسرے کی مددکرنے کاخطرہ مول نہیں لیتے ۔مگراس کے باوجوداگرچندباہمت لوگ سامنے آجائیں جوگواہی دیں کہ انہوں نے فلاں لاپتہ شخص کوفلاں جگہ پردیکھاہے تواس پرلاپتہ افرادکاکمیشن کچھ نہیں کرپاتاجوایک الگ داستان غم ہے ۔25اکتوبرکوسنے جانے والے کیسز میں چکوال سے 2010ء سے لاپتہ دوبھائی عمربخت اورعمرحیات کاکیس بھی تھا۔4سال قبل اس کیس کے حوالے سے حتمی ثبوت مل چکے ہیں مگر ابھی تک بازیابی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔2009 ء میں پشاور کی ایک مسجد کے خطیب خیرالرحمان کو تمام اہلخانہ کے ساتھ اٹھایا گیا تھا بال بچے تو ایک ہفتے میں واپس آگئے مگر خیرالرحمان آج تک لاپتہ ہے اس کا بوڑھا باپ اس کی یاد میں روروکر آنکھوں سے معذور ہوچکا ہے۔ لاہور کے مدثر اقبال کی والدہ 2014 ء تک بیٹے کی رہائی کے لیے لاہور ، اسلام آباد کے درمیان سفر کرتی رہیں لیکن اب فالج کی مریضہ بن جانے کے سبب چارپائی پر ہیں، کبیروالا کے عبدالرحمان ، بشیر احمد عثمانی اور عبدالجبار شاکر کے نام بھی اس لسٹ میں تھے جن کا کیس 25 اکتوبر کو سناجاتا ۔ محترمہ آمنہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اکثر لاپتہ افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا جارہا ہے ۔کراچی کے 2 انجینئرز بھائی ستمبر 2017 کو مختلف تاریخوں میں اٹھائے گئے، ایک بھائی سکندر جمال کی حال ہی میں پولیس مقابلے کے بعد لاش گھر والوں کو دیدی گئی، جبکہ دوسرابھائی حسن جمال تاحال لاپتا ہے ۔ اس ملک میں وزیراعظم، گورنر اور جسٹس کے بیٹے تو بازیاب کروالیئے جاتے ہیں مگرعام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور سینیٹر فرحت اللہ بابر کی لاپتہ افراد کے لیے کی جانے والی کوششوں کو امید کی کرن قرار دیا۔آمنہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ میڈیا میں بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے مکمل سچ نہیں آسکتا۔ایک مرتبہ ایک لاپتہ فرد کی بیوی نے کسی ذمہ دار سے کہا کہ مجھے میرے شوہر تک رسائی دی جائے ورنہ میں میڈیا میں چلی جاؤں گی، متعلقہ ذمہ دار نے اس خاتون سے کہا ’’اگر آپ نے آمنہ جنجوعہ بننے کی کوشش کی ، تو اس کا حال دیکھ لیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور لواحقین عدالتوں میں اور کمیشن میں بیان حلفی جمع کرواتے ہیں کہ اگر ہمارے لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے توان کو سامنے لاکر پھانسی دے د یں ہم کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ مگر لاپتہ نہ رکھیں ۔انہوں نے ایسے والدین کا ذکربھی کیا جو متعلقہ جگہوں پر جاکر اپنے لاپتہ ہونے والے افراد کی لاشیں مانگتے ہیں کہ اگر زندہ نہیں دے سکتے تو مردہ حالت میں دے دو تاکہ ہم ان کو دفنا کر ان کی قبر تو دیکھتے رہیں۔ آمنہ صاحبہ نے بتایاکہ نوازشریف صاحب اورچوہدری صاحب اقتدارکے دنوں میں کوشش کے باوجودلاپتہ افرادکے لیے کچھ نہیں کرسکے ۔ آمنہ صاحبہ کے فون بند کرنے کے بعد میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہ انسانی تاریخ کا بدترین المیہ ہے کہ ،جس دور کو لوگ عظیم سمجھتے ہیں جہاں لوگ دعوی کرتے ہیں کہ آج کا انسان ماضی کے تمام انسانوں کے مقابلے میں آزاد ترین انسان ہے وہاں جبری گمشدگی آج بھی اپنا وجود رکھتی ہے ۔چند روز قبل سینیٹ میں فرحت اللہ بابر صاحب اور چیئرمین سینیٹ نے لاپتہ افراد کے مسئلہ پر کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہیں اور بنتی ہے۔پہلے صرف پاکستانی اٹھاکر غائب کردئیے جاتے تھے اب غیر ملکی بھی غائب کیے جارہے ہیں اگر ملک میں ایسا ہی چلتا رہا تو، عالمی برادری ہماری (پاکستان )کی کیا عزت کریگی؟جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھاکہ اس نے پاکستانی ،امریکہ کوبیچے ہیں،اورجنرل پرویزمشرف پاکستان سے باعزت باہرچلاگیا۔ہم بین الاقوامی سطح پراپنے لیے مشکلات خودتیارکررہے ہیں۔آج پورے ملک میں لاکھوں لوگوں کو اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں یہ خوش گمانی ہوگی کہ وہ ہرمعاملے میں بااختیار ہیں ، مگر عدلیہ کا اختیار لاپتہ افراد کے کیسز میں کتناچلتا ہے ؟ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے ۔ پاکستان کی فکر کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ جزا اور سزا کا قانون جب تک اپنی روح کے مطابق نافذ نہیں ہوگا اس وقت تک نہ ملک ترقی کرسکتا ہے نہ معیشت پروان چڑھے گی اور نہ ہی امن قائم ہوگا ، اگرکسی نے جرم کیا ہے تو اس کو قانون کے مطابق سزادی جائے، قانون میں طریقہ کار واضح کردیا گیا ہے۔ اگر کوئی، طریقہ کار سے متفق نہیں یا وہ سمجھتا ہے کہ اس طریقہ کار میں خامیاں ہیں جو مجرموں کو فائدہ دیتی ہیں تو قانون ساز اسمبلی سے ترمیم کروائی جاسکتی ہے ۔ جن کے لیے پاکستان سب سے پہلے ہے ،ان کے لیے اسی پاکستان کاآئین ،قانون ،اصول وضابطے کیوں سب سے مقدس اورمعتبرنہیں؟ خداکے بنائے ہوئے قانون کو نافذ نہ کرنے والے لوگ ،اب اپنے بنائے ہوئے قانون کی تو عزت کریں ۔ قومیں صرف کرپشن سے تباہ نہیں ہوتی ہیں،قومیں صرف اخلاقی پستی سے تباہ نہیں ہوتی ہیں ، قومیں اس وقت تباہ ہوجاتی ہیں، جب وہاں سے انصاف بھی ختم ہوجائے۔ہرفرد قیامت کے روز اللہ پاک کو نہ محب وطن ہونے کے ناطے جوابدہ ہوگا نہ کسی ادارے کافرد ہونے کے ناطے۔نہ دفاع وطن کے تقاضوں کے نام پرکسی ناانصافی پرمعافی طلب کرسکے گا۔روزمحشر ہر فرد کو اپنے کیئے کا جواب اپنی ذاتی حیثیت کے مطابق دینا ہوگا۔ رسول ﷺ نے جنگ میں بھی قیدیوں ، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کی حرمت کو سلامت رکھا۔ظلم کا بدلہ ظلم کسی صورت بھی نہیں ہوسکتا ۔ نفرت کا جواب محبت ہوتی ہے ، ناکہ نفرت۔اس لیے اصل پاور اور اقتدار رکھنے والے محب وطن بھائیوں کو چاہیے کہ وہ غریب، مظلوم اور کمزور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی بددعاؤں سے بچیں۔وہ سادہ لوگ جومذہب کے نام پراستعمال ہوئے ،ان بیچاروں کاکیاقصورتھا؟کل تک کے غازی آج غدارٹھہرے ۔المیہ یہ نہیں لوگ مارے گئے المیہ یہ ہے کہ ،مارے جانے والے تاریک راہوں میں مارے گئے ۔اوران کے پیچھے بیوائیں،بچے ،بوڑھے ماں باپ دربدرکی ٹھوکریں کھاتے تقدیرمیں لکھی آزمائشیں کاٹ رہے ہیں۔المیے سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ آج بھی وہ لوگ جن کوخطابت آتی ہے جولاکھوں کامجمع جمع کرلیتے ہیں،جولشکرتیارکرسکتے ہیں۔وہ اپنی آنکھوں سے افغانستان اورکشمیرمیں اپنے ساتھ روارکھاجانے والاسلوک دیکھ کربھی توبہ کرنے پرراضی نہیں ہیں۔آج بھی لشکرنکالنے کاٹھیکہ پکڑنے سے بازنہیں آتے ۔ایک روٹی ،دوبوٹی کے لیے مذہب کااستحصال انتہائی حرام عمل ہے ۔میں جب کبھی دارالحکومت کی اداس شام کاخوبصورت دیکھتاہوں تب وہ لاکھوں شہداء ،قیدی اورغازی جوعالمی ،علاقائی ،گروہی ،مسلکی ،اورقومی مفادکوسمجھنے سے بالکل قاصررہے اوران کے بعدان کے دربدر،رلتے بچے دیکھتاہوں توخیال آتاہے کہ اللہ تعالی توان کی نیت کے عیوض ان کوضروراجردے گا،مگرکیایہ سب تاریک راہوں میں مارے گئے ۔۔۔۔۔۔؟؟؟

حصہ
احمد اعوان اسلامی تاریخ، فلسفہ، جدیدیت، سیاست، خواتین کے حقوق، انسانی حقوق، ماڈرن اسٹیٹ اور سماجی مسائل جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ موصوف نے جامعہ کراچی سے اسلامی تاریخ میں ایم اے مکمل کرنے کے بعد ایس ایم لاءکالج سے ایل ایل بی مکمل کیا۔ پیشہ ور وکیل ہیں اور ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کے لیگل ایڈوائزر ہیں۔ ahmedawan1947@gmail.com

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں