کینسر سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے

یار سلیم کو کینسر ہے ۔کیا کہے رہے ہو بھائی واقعی؟ ہاں یار بہت تکلیف میں ہے وہ۔ اب اللہ جانے کیا ہوگا؟یہ کسی سلیم کی کہانی نہیں بلکہ پاکستان اور دنیا بھر میں ہر پانچویں شخص کی کہانی ہے جو کینسر جیسے مرض کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر خود سے زیادہ لوگوں کے ڈرانے کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتا ہے ۔آج سے 20سال قبل کی بات کریں تو شائد واقعی کینسر ایک خطرناک اور لاعلاج بیماری تھی مگر رفتہ رفتہ دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ کینسر جیسی مہلک بیماری کا بھی علاج دریافت ہوگیا اور لوگ صحت یاب ہونے لگے اور پھر لمبی زندگی بھی جیئے مگر دیکھا جائے تو کینسر آج بھی تمام لوگوں کے لیے ایک بھیانک خواب بنا ہوا ہے اور اگر کسی کو کینسر ہوجائے تو آدھے تو لوگ اسے ڈرا ڈرا کر مار دیتے ہیں اور آدھا وہ خود خوف سے مرجاتا ہے جبکہ کینسر کا اب علاج ممکن ہے مگر اس کے لیے تھوڑی ہمت سے کام لینا چاہیے بس ۔کینسر جیسی بیماری بالکل اپنے آخری حصے میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر اس کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں مگر اس کے اثرات شروع سے ہی رونما ہونے لگتے ہیں بس بندے کو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے کینسر کی علامت میں سب سے پہلے آپ کا وزن کم ہونا ہے پھر بھوک کا کم ہونا ہے نیند کا زیادہ آنا ہے اگر یہ سب علامات ظاہر ہونے لگیں تو سب سے پہلے آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور اس کی مکمل ہدایت پر عمل کرنا چاہیے ۔گوکہ کینسر کا علاج مشکل ضرور ہے مگر مریض صحتیاب ضرور ہوجاتا ہے بس ہمت پکڑنے کی ضرورت ہوتی ہے ارادے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور مرض سے جنگ کرنے کی ضرورت ہے کیسنر کا علاج آپریشن سے بھی ممکن ہے جس میں بندہ جلد صحتیاب ہوجاتا ہے اور ایک علاج کیمو تھراپی ہے یا ریڈیو تھراپی اور ان دونوں عمل کے دوران مریض کوبہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور مریض اگر مضبوط اعصاب کا مالک ہو تو وہ اس مرحلہ سے بآسانی گذر جاتا ہے اور پھر ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگتا ہے ۔کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول فطری ،متوازن اور سادہ زندگی گزارنا ہے اور غیر فطری طرزِ زندگی سے بچنا ہے۔طرزِ زندگی میں سادگی ، مرغن غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بچنا ،ورزش،ہر طرح کا نشہ خصوصاً پان ، چھالیہ ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے بچنااورخصوصاًجگر کے کینسر سے بچاؤ کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے وغیرہ ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں کینسر کے کیسز کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔اب تک تو ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں کینسر کے کیسز کی تعداد برابر ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق آئندہ دس سالوں میں ترقی پذیر ممالک میں ان کیسز کی تعداد 75% تک بڑھ جائے گی۔WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق 2005۔2017کے عشرے میں آٹھ کروڑ چالیس لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اگر مناسب تدابیر برائے تشخیص اور علاج مہیا کر دی جائیں تو اس میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں