ابو عبد اللہ بن ابوالحسن۔۔سقوطِ غرناطہ کا اہم کردار

مور کی آخری آہ
جس چیز کی حفاظت تم مردو ں کی طرح نہیں کرسکے ، اس کے چھن جانے پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔
یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مسلم اسپین (اندلس)کے آخری حکمراں ابو عبداللہ بن مولائے ابو الحسن کی والدہ نے اُسے اُس وقت کہے جب وہ غرناطہ کی چابیاں عیسائی حکمرانوں کے حوالے کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غرناطہ سے جلا وطن ہورہا تھا۔ اس نے جب آخری نگاہ اپنے آبا ؤ اجداد کے ورثے پر ڈالی تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ اس مقام پر جہاں ابو عبداللہ کی آہ نکلی عیسائیوں نے مسلمانوں کی شکست کی علامت کے طور پر محفوظ کرلیا اور آج اسے مور کی آخری آہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔خیال رہے کہ یورپی تاریخ داں اندلس کے مسلمانوں کے لئے ’’مور‘‘ Moors کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
ابو عبداللہ، اندلس کی آخری مسلم ریاست غرناطہ کا وہ بد بخت حکمران تھا جس نے عین اس وقت اپنے والد ابو الحسن اور چچا محمد بن سعد الزاغل کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا جب وہ اندلس میں عیسائیوں کے مشترکہ لشکر سے اندلس میں مسلمانوں کی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہے تھے۔
سن 1469 ؁ء کا سیاسی منظر نامہ اندلس کے تناظر میں
1469 ؁ء کے اندلس کے سیاسی منظر نامے پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے اس داستان کے آخری باب کی طرف چلتے ہیں جس کا آغاز تقریباًآٹھ سو سال قبل جبل طارق یا جبرالٹر کے ساحل پر طارق بن زیاد نے عیسائی گاتھ شہنشاہ راڈرک کو عبرتناک شکست دے کر کیا تھا ۔موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد نے جلد ہی اسپین سے عیسائیوں کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور اسی طرح اسپین، دمشق کی خلافت کے زیر نگیں آگیا۔ دمشق کے انقلاب کے بعد اسلامی خلافت بغداد منتقل ہوگئی اور اندلس کی حکمرانی اموی شہزادے عبدالرحمن الداخل کو مل گئی ۔وقت گزرتا گیا اور اندلس کی حکومتیں بدلتی رہیں اور مسلمان اندلس میں مضبوط اور مستحکم ہوتے چلے گئے۔ آہستہ آہستہ اندلس عالم سلام کا علم و ہنر کا مرکز بن گیا۔ دور عروج میں اندلس نے ابنِ بیطار،ابنِ رشد،ابنِ باجہ، الفارابی۔ ابنَ حزم، اسحق موصلی ،اور الخظیب جیسے ہزاروں علماء اور فضلاء پیدا کئے۔
پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اندلس کے مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا،پھر قدرت نے یوسف بن تاشفین کی صورت میں اندلس کے مسلمانوں کو سنبھلنے کا بہترین موقع فراہم کیا مگر ان کے نصیب میں زوال لکھ دیا گیا تھا ۔
الداخل کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہونا شروع ہوگئی۔ سرقسطہ ، قشطالیہ ،الشبیلہ اور قرطبہ جیسے عظیم علم و ہنر کے مراکز مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے شروع ہوگئے۔
اراغون اور قشطالیہ کی مضبوط عیسائی ریاستیں وجود میں آگئیں ۔اراغون کی حکمران ازابیلانامی ملکہ تھی جو تاریخ میں ملکہ ازابیلا کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ وہی ملکہ ہے جس کی تحریک پر کولمبس نے اپنی بحری مہم شروع کی تھی۔دوسری طرف قسطلہ کا شاہ فرنڈیڈ (Ferdinand) نامی متعصب عیسائی شخص تھا ۔یہ دونوں حکمراں شدت پسند اور مسلمان دشمن تھے۔یہ دونوں اندلس سے مکمل طور پر مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے تھے، اسی مشترکہ مفاد کے تحت ان دونوں حکمرانوں نے 1469 ؁ء میں اراغون اور قسطلہ کی ریاستوں کو باہم مدغم کرلیا اور آپس میں شادی کرلی ۔


غرناطہ! اندلس میں مسلمانوں کی آخری امید 
1469 ؁ء تک اندلس کے مسلمان غرناطہ کی ریاست تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔سارا اندلس ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا ،مسلمان اندلس بھر سے سمٹ کر غرناطہ میں اپنی بقاء کی لڑائی میں مصروف تھے ۔ غرناطہ کا موجودہ حکمران ایک نڈر اور قابل شخص مولائے ابو الحسن تھا ۔اہل اندلس کو طویل عرصے بعد ایک لائق حکمران نصیب ہوا تھا ۔اہل اندلس اسے اپنا نجات ہند تعبیر کررہے تھے۔سلطان ابو الحسن سے مسلمانوں کی توقعات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلطان کا بھائی محمد بن سعد الزاغل (جو الزاغل کے نام سے مشہور ہے )مالقہ کے علاقے کا حکمران تھا اور جب اس نے یہ محسوس کیا کہ عیسائی ان دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈلوانا چاہتے ہیں تو الزاغل فوراًغرناطہ پہنچا اور اس نے مالقہ کے تخت سے دست بردار ہوتے ہوئے ابوالحسن کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔اسی طرح ابوالحسن طاقتور ہوگیا اور جب فرنڈیڈ نے ابو الحسن سے خراج طلب کیا تو اس نے وہ تاریخی جواب دیا جو ہمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوط ہوگیا۔ ابو الحسن نے کہا ’’غرناطہ کے ٹکسال میں عیسائیوں کو دینے کے لئے سکّوں کے بجائے اب فولاد کی وہ تلواریں تیار ہوتی ہیں جو ان کی گردنیں اتار سکیں۔‘‘
یہ جواب سن کر فرنڈیڈاور ازابیلا مبہوت رہ گئے۔ اس وقت قسطلہ اور اراغون کی باہمی ریاست کا رقبہ سوا لاکھ مربع میل کے لگ بھگ تھا ۔جبکہ غرناطہ کی ریاست سمٹ سمٹا کر صرف چار ہزار مربع میل رہ گئی تھی۔یہ مختصر رقبہ بھی عیسائیوں کی نگاہ میں کھٹک رہا تھا وہ اندلس سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے۔انہوں نے ابو الحسن سے فیصلہ کن جنگ کا ارادہ کیا اور خاموشی سے جنگی تیاریاں تیز کردیں۔ ابو الحسن بھی غافل نہیں تھا ۔

ابو الحسن اور فرنڈیڈکا ٹکراؤ
آخر کار غرناطہ کے سرحدی مقام لوشہ میں سلطان ابو الحسن اور فرنڈیڈ (Ferdinand) کا ٹکراؤ ہوگیا ،اہل غرناطہ قوت اور عدد دونوں اعتبار سے عیسائیوں کی مشترکہ افواج کے مقابلے پر کمزور تھے ۔مگر ان کو علم تھا کے اندلس میں یہ ان کے پاس یہی آخری خطہ اراضی رہ گیا ہے ۔اس کے دفاع کے لئے اہل غرناطہ نے سر دھڑ کی بازی لگادی۔آخر کار لوشہ کے میدان میں طارق بن زیاد کی یاد تازہ کرتے ہوئے ابو الحسن نے فرنیڈنڈ کو شکست فاش سے دو چار کیا۔
غرناطہ کے ولی عہد ابو عبداللہ کی بغاوت 
ابھی ابوالحسن لوشہ کے میدان میں ہی تھا کہ غرناطہ میں اس کے ولی عہد ابو عبداللہ نے بغاوت کردی اور غرناطہ کے تخت کا مالک بن بیٹھا۔عیسائیوں سے جہاد میں مشغول مسلمانوں کے لئے یہ خطرناک اطلاع تھی ۔لوشہ کی فتح کے بعد وہ ابو الحسن کی سربراہی میں اندلس میں مسلمانوں کی نشاط ثانیہ کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ابو عبداللہ کی بغاوت نے ان کے ہوش اڑا دئے اور سلطان ابو الحسن کو مجبوراًلوشہ چھوڑ کر مالقہ میں پناہ لینی پڑی۔یعنی اس نازک دور میں جب اہل اندلس اپنے بقاء کی جنگ میں مصروف تھے ،ابو عبداللہ کی اقتدار کی ہوس نے غرناطہ کی سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔بجائے باپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے ابوعبداللہ اس کی سلطنت کے درپے ہوگیا ۔دوسری طرف مسلمانوں کو منقسم دیکھ کر شکست خورہ فرنڈیڈکو حوصلہ مل گیا اور اس نے مالقہ پر حملہ کردیا ۔مالقہ میں ابو الحسن اور فرنڈیڈ کو برسرپیکار دیکھ کر ابو عبداللہ نے بے غیرتی کی انتہا کرتے ہوئے ابوالحسن پر پشت سے حملہ کردیا ۔ابو الحسن تجربہ کار سپہ سالار تھا ،اس نے ایک طرف تو عیسائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا دوسری طرف ابو عبداللہ کو واپس غرناطہ جانے پر مجبور کردیا ۔
ابو عبداللہ کی فرنڈیڈ کے ہا تھوں گرفتاری
اسی دوران ابو عبداللہ اور فرنڈیڈ کالوشنیہ کے مقام پر آمنا سامنا ہوگیا ۔ناتجربہ کار ابو عبداللہ نے شکست کھائی اور گرفتار ہوگیا ،ابو عبداللہ کے فرنڈیڈ کی قید میں جانے کے بعد غرناطہ کا تخت خالی ہوگیا ، بیٹے کی بغاوت نے ابو الحسن کو بیمار کردیا تھا ،اس پر زبر دست فالج کا حملہ ہوگیا تھا،اس نے ریاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے بھائی الزاغل کو غرناطہ کا تخت سنبھالنے اور فرنیڈنڈکا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔الزاغل غرناطہ پہنچا اور اس نے مسلم افواج کی ازسرِنو تنظیم شروع کردی ۔ الزاغل بلاشبہ ابو الحسن کا حقیقی جانشین تھا اور ممکن تھا کہ اپنی دلیری اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اندلس کے مسلمانوں کا نجات دہنرہ بن جاتا مگر اس موقع پر ابو عبداللہ کا ایک دفعہ پھر مکروہ کردار سامنے آتا ہے۔
دوران قید فرنیڈنڈ نے ابو عبداللہ کی خصلت پہچان لی۔ وہ سمجھ گیا کہ ابو عبداللہ کو مسلمانوں سے زیادہ اپنے اقتدار کی خواہش ہے ۔اب فرنیڈنڈ نے ابو عبداللہ کو الزاغل اور ابوالحسن کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اس نے ابو عبداللہ کو یقین دلایا کہ وہ اسے غرناطہ کا وارث تسلیم کرتا ہے اور یہ کہ فرنیڈنڈ غرناطہ کا تخت حاصل کرنے میں ابوعبداللہ کی مدد کرے گا ۔


ابوعبداللہ کی رہائی اور الزاغل سے ٹکراؤ
ابو عبداللہ سے ساز باز کرنے کے بعد فرنڈیڈنے اسے اپنی قید سے رخصت کردیا ۔ابو عبداللہ سیدھا مالقہ پہنچا جہاں الزاغل کا قبضہ تھااہل مالقہ کو یقین دہانی کرائی کہ فرنڈیڈ اس کے ساتھ ہے اور اگر اہل مالقہ ،ابو عبداللہ کا ساتھ دیں تو وہ ان کی عیسائیوں سے صلح کروا سکتا ہے ۔جنگ و جدل سے گھبرائے ہوئے مسلمان اس کی باتوں میں آگئے اور انہوں نے مالقہ پر ابو عبداللہ کی بالا دستی تسلیم کرلی۔اب ابو عبداللہ نے الزاغل کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ لوشہ کا قلعہ اس کے حوالے کردے تو ان دونوں کی صلح ہوسکتی ہے ۔اس طرح عیسائیوں کی مشترکہ افواج کا مقابلہ دونوں مل کر کریں گے۔ لوشہ کا قلعہ دراصل غرناطہ کا دفاعی مورچہ تھا ، فرنڈیڈ کئی سالوں سے لوشہ پر قبضہ کرنے کے چکر میں تھا اس طرح اُس کا راستہ غرناطہ تک آسان ہوجاتا ۔ مگر اہل لوشہ نے اپنے علاقے کا دفاع بڑی بے جگری سے کیا ہوا ۔لوشہ کی دفاعی اہمیت کے باوجود مسلمانوں میں اتحاد کے خواہشمند الزاغل نے ابو عبداللہ کا کہا مان لیا اور لوشہ کا قلعہ اس کے حوالے کردیا۔
لوشہ پر قبضہ فرنڈیڈ کے منصوبے کا حصہ تھا۔ اب ابو عبداللہ مالقہ اور لوشہ دونوں پر قابض تھا۔ اس نے فوراً فرنیڈنڈ کو لوشہ آنے کی دعوت دے ڈالی۔مسلمان حیران و پریشان ہوگئے کہ جس لوشہ کی حفاظت کیلئے انہوں نے سالوں سے سر دھر کی بازی لگائی ہوئی ہے وہ بغیر کسی خون خرابے کے فرنڈیڈ کو مل گیا ۔
ابو عبداللہ کا غرناطہ پر قبضہ 
ادھر مالقہ میں جب مسلمانوں نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے ابو عبداللہ کے خلاف بغاوت کردی۔ اس پر فرنڈیڈ نے مالقہ کا محاصرہ کرلیا ۔ اہل مالقہ کی مدد کے لئے الزاغل غرناطہ سے روانہ ہوگیا۔ غرناطہ خالی دیکھ کر ابوعبداللہ کو سنہری موقع مل گیا ،وہ فوراًغرناطہ پہنچ گیا اور تخت غرناطہ پر قبضہ کرلیا ۔
یہاں سے المناک داستان کا وہ باب شروع ہوتا ہے جس کا انجام مسلمانانِ اندلس کی مکمل بربادی پر ختم ہوا ۔وہ لوگ جو آٹھ سو سال قبل اندلس میں روشنی کا پیغام لے کر آئے تھے اور روشنی کی مانند پورے اندلس میں پھیل گئے تھے وہ راستہ بھول گئے ۔ افراد راستہ بھول جائیں تو گھرانے تباہ ہوجاتے ہیں مگر جب قومیں راستہ فراموش کردیں تو سلطنتیں برباد ہوجاتی ہیں ۔اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔غرناطہ پر ابوعبداللہ کا قبضہ بھی مسلمانان اندلس کیلئے بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
یہ منظر نامہ دیکھتے ہوئے مالقہ والوں نے فرنیڈنڈ سے صلح کرلی ۔اس طرح لوشہ اور مالقہ پر فرنڈیڈ کا قبضہ مکمل ہوگیا ۔
فرنڈیڈ کا ابو عبداللہ کو غرناطہ حوالے کرنے کا پیغام 
ابو عبداللہ کو بیٹا کہنے اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا دم بھرنے والا فرنڈیڈ اب اپنے اصل روپ میں آگیا ۔ اس نے ابو عبداللہ کو پیغام بھجوایا کہ اب غرناطہ کی چابیاں عیسائیوں کے حوالے کردی جائیں ۔یہ پیغام ملتے ہی ابوعبداللہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔اپنوں سے غداری کرنے کا انجام اسے نظر آنے لگا ۔اس نے اہل غرناطہ سے مشورہ کیا اہل غرناطہ موسیٰ اور طارق کے فرزند تھے ۔انہوں نے آخری دم تک جنگ لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔اہل غرناطہ اور فرنڈیڈ میں سخت لڑائی لڑی گئی۔مسلمانوں کو علم تھا کہ اندلس میں اب غرناطہ ہی ان کی آخری امید ہے لہٰذا وہ جم کر لڑے اور انہوں نے عیسائیوں کو شکست سے دوچار کردیا غرناطہ کے مضافات کے علاقے دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آگئے ۔ان میں البشرات نامی پہاڑی علاقہ بھی شامل تھا ۔
الزاغل کا شرمناک کردار 
قدرت قوموں کو سنبھلنے کیلئے کئی مواقع دیتی ہے۔ یوسف بن تاشفین کی آمد سے لے کر ابو الحسن کی تخت نشینی تک اہل اندلس کو سنبھلنے کے کئی مواقع ملے ۔مگر اقتدار کی خواہش اور ہوس میں اپنوں سے غداری نے اہل اندلس کو برباد کر کے چھوڑا۔ اس نازک موقع پر جب عیسائی اندلس میں مسلمانوں کو آخری پناہ گاہ کے سامنے مورچہ زن تھے اس وقت بھی اہل اندلس کی آپس کی نااتفاقی ختم نہ ہوئی۔ اہل غرناطہ کی ابو عبداللہ کی سربراہی میں عیسائیوں کے خلاف کامیابیاں اس کے چچا الزاغل کو ایک آنکھ نہ بھائی‘ وہی محمد بن سعد الزاغل جو کچھ عرصہ قبل مسلمانوں کے اتحاد کی خاطر اپنے بھائی سلطان ابو الحسن کے حق میں اپنی سلطنت سے دستبردار ہو چکا تھا اس دفعہ اس نے شرمناک حرکت کی۔الزاغل نے اہل غرناطہ کے خلاف فرنڈیڈ کے حق میں اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے فرنڈیڈ کو ابو عبداللہ پر حملہ کرنے پر اکسایا ۔
فرنیڈنڈ نے یہ سنہری موقع جانے نہ دیا اور ایک دفعہ پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑوادیا ۔اب الزاغل نے فرنیڈنڈ کی مدد کے ساتھ ابو عبداللہ پر حملے کرنے شروع کئے ،غرناطہ کے مضافات کے تمام قلعے ایک ایک کرکے عیسائیوں کے قبضہ میں دوبارہ چلے گئے اور آخر کار اہل غرناطہ محصور ہو کر رہ گئے ۔ غرناطہ کے تخت کا خواہش مند الزاغل کو فرنڈیڈ نے اس کی خدمات کا صلہ دیتے ہوئے اسے اسپین سے نکل جانے کا حکم دیا۔ الزاغل، فرنڈیڈ کا منہ دیکھتا رہ گیا اور آخر کار مراکش میں جلا وطن کردیا گیا اور وہیں گم نامی کی موت مرگیا۔ غداروں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔


سقوطِ غرناطہ
اب فرنڈیڈ اور ازابیلا نے فیصلہ کن معرکہ کی تیاریاں شروع کردیں۔1492 ؁ء کا سال آگیا اور اسی سال موسم گرما میں عیسائیوں کی مشترکہ ا فواج نے غرناطہ کا محاصرہ کرلیا ۔غرناطہ کے شمال میں پہاڑی سلسلہ تھے اور محاصرے کے دوران اہل غرناطہ کو مدد ملتی رہی۔ مگر سردیاں شروع ہوتے ہی پہاڑوں پر برف باری شروع ہوگئی اور غرناطہ کو کمک ملنا بند ہوگئی ۔شہر میں اشیاء خورد نوش کی قلت ہوگئی ۔
اہل غرناطہ اب بھی عیسائیوں پر فیصلہ کن حملہ کرنے پر آمادہ تھے ۔غرناطہ کا سپہ سالار ’موسیٰ بن ابی غسان‘ افسانوی شہرت کا حامل کردار تھا۔ وہ آخری سپاہی تک لڑنا چاہتا تھامگر ابو عبداللہ ذہنی طور پر شکست قبول کرچکا تھا ۔وہ اور اس کے اکثر امراء فرنڈیڈ سے صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اسی طرح وہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات حصل کرسکیں گے۔امراءِ سلطنت سازش میں مصروف ہوگئے۔ پس پردہ عیسائیوں سے رابطے قائم کرنے لگے ان سازشی عناصر کا سر غنہ وزیر اعظم غرناطہ ’ابوالقاسم‘ تھا۔ فرنڈیڈنے غرناطہ پر قبضے کی صورت میں اس کوغرناطہ کا اہم عہدہ دینے کا وعدہ کرلیا۔۔ابو عبداللہ کی ذہنی شکست میں ابو القاسم کا مرکزی کردار تھا ۔بلاآخر ابو عبداللہ نے ابو القاسم کو خفیہ سفارتکاری کی اجازت دے دی۔ صلح کی شرائط طے کرلی گئیں ۔بظاہر ان شرائط میں مسلمانوں کے لئے ہر قسم کا تحفظ یقینی بتایا گیا تھا مگر بعد میں عیسائیوں نے اس پر کتنا عمل کیا وہ ایک علیحدہ باب ہے۔
معاہدے کے تحت ابو عبداللہ کو البشرات کے علاقے میں ایک جاگیر دے دی گئی۔آخر کار وہ تاریخی دن آگیا جسے آج تک تاریخ اسلام کا طالب علم سیاہ دن سے تعبیر کرتا ہے۔2جنوری 1492 ؁ء کو غرناطہ کی چابیاں ابو عبداللہ نے اپنے ہاتھوں سے فرنڈیڈ اور ازابیلا کو پیش کردیں۔ پادری اعظم نے قصر الحمراء پر لہراتا صدیوں پرانا پرچم اسلامی اتار کر صلیب کو نصب کردیاور اس طرح سقوط غرناطہ کے ساتھ ساتھ اندلس میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ حکمرانی کا سورج بھی غروب ہوگیا ۔سو سال کے اندر اند رعیسائیوں کے ظلم و ستم کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے مراکش اور شمالی افریقہ میں آباد ہوگئے ان کے قبائل آج بھی وہاں مہاجر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور بیشمار اہل ایمان عیسائی ظلم و ستم کی تاب نہ لا کر عیسائی بن گئے ۔یوں ایک غدار اور بزدل حکمران ابوعبداللہ کی شامت اعمال کا نتیجہ اہل اندلس کو دیکھنا پڑا۔
*۔۔۔*۔۔۔*

حصہ
mm
عدیل سلیم ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں،تاریخ اسلام سے انہیں خاص دلچسپی ہیں،تاریخی موضوعات کوعام فہم انداز میں قلم بند کرنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔

5 تبصرے

  1. بہت معلوماتی اور سبق آموز تحریر ….. وہی تاریخی سچ کہ…….. ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے… آج بھی اغیار کے سامنے انتہائی پستی کے باوجود امت مسلمہ…. چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر آپس میں ہی لڑ رہی ہے….. یعنی ابو عبداللہ… آج بھی زندہ اور مصروفِ عمل ہے

  2. ننگ دین ننگ ملت ننگ وطن…
    ایک شرمناک کردار جو آج بھی ھمارے درمیان ذندہ ہے

  3. ماشاء اللہ ، ایک خوبصورت تحریر عدیل صاحب آپ کی تاریخ اسلام پر بہت اچھی گرفت ھے ماشاء اللہ خوب لکھتے ہیں
    سلامت رہیں

  4. ننگ دین فروش، ننگ ملت فروش، ننگ انسانیت، تمام لوگوں کی خون اس بے عیرت کے ذمے

جواب چھوڑ دیں