کیا ہوئی وہ تہذیب جس کے تم امین تھے ؟

نانی دادیوں بلکہ پردادیوں کے بچپن کے زمانے کی ایک کہاوت ہے ایک زمانہ آئے گاجب ہر گھر میں طوائف ناچے گی۔
اورحقیقت یہ ہے کہ آج کے دورمیں یہ کہاوت ہمارے میڈیا نے سچ ثابت کردی،جس چینل کو بھی دیکھ لیں،ناچنے گانے کی محفلیں سجی ہیں۔ کسی زمانے میں جو کام صرف طوائفوں کا تھا اور ان کے کوٹھے ہی اس کے لیے مخصوص تھے ۔ شرفاکو اپنی عزت اتنی عزیز تھی کہ اس محلّے سے دس گزدور سے ہی گزرتے کہ اس محلّہ کی ہوا بھی نہ لگے اورلوگ غلط ہی نہ سمجھ بیٹھیں کوئی ہماری شرافت پرانگلی نہ اٹھادے!!
آج ماں باپ خود اپنے بچوں کو ناچنے گانے کے لیے پیش کررہے ہیں جیسے ناچنا اورگانا انتہائی مہذب اور شریفانہ پیشہ ہو!۔
نوجوان لڑکیاں کیسی خوشی سے اپنے ساحر بھائی کے ساتھ ناچ رہی ہیں۔
میڈیانے پوری قوم کو ناچنے پر لگا رکھا۔
خدا کا غضب نہ آئے تو کیا آئے؟
کبھی بیماریوں وباؤں کی شکل میں تو کبھی زلزلوں وآفات کی صورت۔۔۔اور پھر بھی ہم سمجھتے نہیں سنبھلتے نہیں۔یا للعجب؟
آج کل آپ کا ساحر کے نام سے حد درجہ گھٹیا پروگرام ’’پاکستانی شادی‘‘،’’ڈانس کمپیٹیشن‘‘ کے نام پر بہت معزرت مجرا کہنا چاہیے،پورے ملک سے نوجوان نسل کو مدعو کرناکیا ہے؟
کمپٹیشن کے نام پر فحاشی و بے حیائی کا اک طوفان ہے۔
خدارا ہوش میں آؤ ____
دور نہ جاؤ چلو اپنے اسلاف کی بات نہ کرو لیکن اب سے چند برس پہلے وہ تمھاری ہی تو نانی دادیاں تھیں جن کے بالوں کی جھلک کوئی غیر مرد نہ دیکھ سکتا تھا،میری بہنوں بیٹیوں تمھارا یہ فن نہیں۔ذرا سی دل کی خوشی نہیں
یہ اعضا کی شاعری نہیں ____ یہ زنا کی دعوت ہے ____ جسکا انجام صرف بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔
فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ
اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
کہاں گئی وہ تہذیب جسکے تم امین تھے؟؟

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

3 تبصرے

  1. ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں حکومت سے اور پیمرا سے اپیل کرتی ہوں کہ اس فحش اور غیراخلاقی پروگرام کو فوری بند کیا جائے ۔

  2. aise programe per pabandi lagaye inhe bataya jaye k ye hamari tehzeeb k khilaf he itne prhe likhe well educated logo ko bhi ye batana parega k ye hamare culture hare deen k bhi khilaf he

Leave a Reply to Sabeen Waseem