احساس کا جذبہ

 

احساس لفظ بذات خود اتنا نرم اور نازک ہے کہ بولتے ہوئے بھی اپنا احساس دلاتا ہے۔ جب لفظ اتنا اچھا ہو تو پھر یہ جذبہ اور اس کی کیفیت کتنی پرکیف اور حساس ہو گی۔ آج کے دور میں احساس کا جذبہ شازونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔ اور جو لوگ یہ جذبہ رکھتے ہیں ان کے دل نرم ہوتے ہیں۔ کیونکہ جن کے دل سخت اور مردہ ہوں وہ اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ احساس کرنے اور کروانے والے لوگ بہت قیمتی اور لاجواب ہوتے ہیں۔ جو احساس کا قرب حاصل کرتے ہیں ان کی منزلیں بھی روشن اور ہموار ہوتی ہیں۔
احساس کسی رشتے میں ہو تو رشتوں کی مضبوطی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نہ ہو تو رشتے بھی آہستہ آہستہ اپنے مدار سے ہٹ کر دوسرے رشتے بنانے لگتے ہیں۔ کچھ رشتوں کا ہم اپنے ہاتھوں سے خون کرتے ہیں اور کچھ اپنی مرضی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں وجہ احساس کی عدم موجودگی ہوتی ہے۔ جو انسانوں کو ان کے پیارے رشتوں سے دور کرتی ہے۔
جیسے ہی ہم احساس کی گہرائی میں جائیں تو اتنی وسعت ملتی ہے کہ انسان چاہے بھی تو اس دائرہ وسعت سے نہیں نکل سکتا۔ احساس نہ ہو تو رشتے ادھورے سے لگتے ہیں۔ نامکمل رشتے کبھی بھی زندگی پرسکون نہیں گزارنے دیتے ایک کمی اور خلا جو احساس کی عدم موجودگی کی وجہ سے رشتوں میں پیدا ہوتا ہے وہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ اشفاق احمد کہتے ہیں:’’فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں بلکہ احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔‘‘
معاشرتی تناظر سے دیکھا جائے تو ہمیں اپنے آس پاس بہت سے ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جو فقط ایک مسکراہٹ کے طلبگار ہوتے ہیں۔کسی کے پیار اور توجہ کے مستحق وہ لوگ اپنی محرومیوں کو اپنے چہرے کے خدوخال پر یوں نقش کیے ہوتے ہیں کہ ہر نگاہ میں ان کی بے بسی اور محرومی آجاتی ہے۔ لیکن کچھ نگاہیں چرا کر اپنی راہ لیتے ہیں اور کچھ نگاہیں اس محرومی کا ازالہ اپنی بساط کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بھی اس لالچ میں کہ شاید یہ نیکی ہمارے گناہوں کی بخشش کا سامان بن جائے۔ اس کے برعکس اگر یہی کام ہم بغیر کسی لالچ اور غرض کے کر لیں تو اس کے فائدے بھی زیادہ ہوں گے۔
بعض اوقات لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہم اپنوں کا اور اپنے اردگرد بسنے والوں کا کیسے احساس کریں؟ اور کچھ پوچھتے ہیں کہ ہم احساس کرنا چاہتے ہیں لیکن سمجھ نہیں آتی کس کا کریں؟ ہم اپنی آخرت کو سنوارنا چاہتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو اتنا اپنی آخرت کا خیال ہو تو اس طرح کے سوال پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔لیکن سادہ لوح اور معصوم لوگوں کی بھی ہمارے معاشرے میں کمی نہیں۔ جن کو اپنا تو بہت خیال ہوتا ہے لیکن اپنے پڑوس میں رہنے والے یتیم بچے دکھائی نہیں دیتے۔جن کو پالنے والے بھی مل جاتے ہیں اور ضروریات زندگی بھی کسی نہ کسی طرح سے پوری ہو جاتی ہیں۔ کامیاب آدمی بھی بن جاتے ہیں لیکن وہ ماں اور باپ کا احساس نہیں ملتا۔ جو ماں کی کمی اور باپ کی شفقت کو پورا کر سکے۔ اگر آپ کسی کی مالی معاونت نہیں کرسکتے تو اپنے خلوص کا احساس دلا کر دوسرے کو تسلی تو دے سکتے ہیں۔
ہماری عادت ہے کہ ہم لوگ کسی کی خستہ حالی دیکھ کر فورا شکر ادا کرتے ہیں کہ شکر ہے اللہ کا ہم پر کرم ہے۔ اور خود کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم غرور سے پاک لوگ ہیں جو کسی کی بدحالی کو دیکھ کر اور اپنی موجودہ حیثیت کا موازنہ کر کے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں عزت و وقار عطا کیا۔ اور شکر ادا کر کے بھی شکوہ کرتے ہیں کہ زندگی میں سکون نہیں ہے۔ نماز بھی ادا کرتے ہیں،حج کا شرف بھی حاصل کر چکے ہیں لیکن سکون نہیں ملتا۔ کوئی وظیفہ بتا دیں جس کو پڑھنے سے سکون حاصل ہو۔ سکون کے متلاشی یہ لوگ اگر خود میں احساس کا جذبہ پیدا کر لیں تو خود بھی سکون میں رہیں اور دوسرے بھی۔
جب آپ کو اپنے اندر کی آواز سننے کی توفیق ملے گی تو پھر ہی شکر ادا کرنے کا حق ادا ہو گا اور سکون کی دولت ملے گی۔ اس لیے اپنے اردگرد کا جائزہ لیا کریں۔ کس کو آپ کی کتنی اور کیسی ضرورت ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہی احساس ہے جو بندوں سے ہو تو اللہ کے قرب سے آشنائی ملتی ہے۔

حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں