بچے سب کے سانجھے

موجودہ معاشرے میں زندگی گزارنا قدرے مشکل ہوتا جارہا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ خود غرضی اور مادیت پرستی ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہیں ہم جیسے سفید پوش پھر بھی گزارہ کرلیتے ہیں مگر ہم سے کم طبقے والے باآسانی پورا نہیں کرپاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم تربیت پر مال و متاع خرچ کرنے کے بجائے ان کو مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ جس  کی وجہ سے یہ کم سن کم عمر بچے اپنے مستقبل کی سوچ بچار کرنے کے بجائے اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں ۔ ننھے ہاتوں کو کتابوں کی چمکتی ہوئی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر وہ  اپنا بچپن اپنے گھر والوں کے پیٹ کا ایندھن بھرنے میں لگادیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بچے سڑکوں پر مختلف اشیاءفروخت کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ کچھ بچے بھیگ مانگ کر اس ظالم معاشرے میں اپنا گزارا کرتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین اپنے پیٹ کا ایندھن بھرنے میں اتنے گم ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں سوچنا سرے سے بند کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایسے بچے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں ۔ ان کے اوپر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ ان بچوں کی ذہنی حالت بھی ابتر ہوچکی ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ بچے چوری کرنے میں لگ جاتے ہیں یہی بچے آگے چل کر جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر یہ بھی تو ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔ ان کوبھی جینے کا حق ویسے ہی ہے جسے دوسرے بچے جیتے ہیں۔ آخر کو خواب دیکھنے کا حق سب کا ہے ۔ ہمیں چاہیے کے ہم ان بچوں کی معاشی و معاشرتی حالت کو بہتر بنانے میں ان کی مدد کریں ۔ یہ بچے بھی بہتر زندگی گزار سکیں۔ کیوں کہ آخر کار بچے تو سب کے سانجے ہوتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں