‪مساوات مرد و زن کا ڈھونگی نظریہ 

آجکل ٹی وی پر “خاموشی” نام کی ایک ڈرامہ سیریل چل رہی ہے جس میں ایک بے حس باپ و بہن بھائی اور مجبور ماں کا کردار دکھایا گیا ہے۔ باپ اپنی کم آمدن کے سبب اپنی ایک بیٹی کو اپنے کسی بہت امیر کزن (جو لڑکی کا چاچا کہلاتا ہے) کے یہاں گھرداری کے لئے بعوض 30 ھزار روپے ماھوار مستقل ملازمہ کے طور پر بھیج دیتا ہے۔ چاچا تو اچھا دکھایا ہے مگر اس کی بیوی انتہائی بداخلاق و بد خو دکھائی گئی ہے جو اس لڑکی کو کام کاج کے معاملے میں سختی کے ساتھ نوکرانیوں کی طرح ٹریٹ کرتی ہے اور چاچا بیگم صاحبہ کے آگے مجبور و بے بس ہیں۔ جہاں ایک طرف لڑکی مظالم و تکالیف سہہ رہی ہے تو دوسری طرف دکھایا جارہا ہے کہ اس کے گھر والے اس کے پیسوں پر عیاشیاں اور اپنی دیرینہ خواہشات پوری کررہے ہیں۔ لڑکی کی ماں کو اگرچہ یہ سب پسند نہیں مگر وہ بیٹی کے سامنے اپنی مجبوریوں کا رونا رو کر اسے کام جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی رہتی ہے۔ یہ تمام تر مناظر اس طور دکھائے جاتے ہیں کہ کس طرح پورا گھر مل کر لڑکی کا استحصال کرکے اسکی کمائی کو لوٹ رہے ہیں۔

یہ سب دیکھتے ہوئے میرا ذھن اس طرف گیا کہ اس کیس میں اگر لڑکی کی جگہ ایک مرد یا لڑکے کو رکھ دیا جائے تو یہاں جو کچھ دکھایا جارہا ہے وہ ہمارے یہاں کا ایک نارمل معاملہ ہے، یعنی یہ تقریبا ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے کہ ایک مرد گھرانے کی ضروریات و خواہشات پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی مشکلات و تکالیف سہہ کر (بسا اوقات دیار غیر کے دھکے کھا کر) کماتا ہے اور اس میں ہمیں استحصال کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہمارا معاشرتی نظام اس امر کو مرد کی ذمہ و فرض قرار دیتا ہے (اور بجا طور پر ایسا کرتا ہے)۔

اب اس سب کو سامنے رکھئے اور مرد و زن کی مساوات پر یقین رکھنے والوں پر غور کیجئے۔ بھائی اگر دونوں برابر ہیں تو پھر ایک لڑکی کے مال پر گھر والوں کے مزے کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ اگر لڑکا کھلے دل و ذمہ داری کے ساتھ یہ سب کرسکتا ہے تو لڑکی کیوں نہیں؟ لڑکی کو اس کی ٹریننگ کیوں نہیں دی جارہی؟ اس کے اندر یہ احساس کیوں پیدا کرتے ہو کہ اگر تمہارے گھر والے تمہاری آمدن استعمال کریں تو یہ نا انصافی ہے؟ اور اگر لڑکی کے معاملے میں یہ استحصال و بے حسی کا مظاہرہ ہے تو لڑکے کے لئے کیوں نہیں؟ یا پیمانہ ایک رکھو اور یا پھر مساوات کے اس ڈھونگی نظرئیے کو ترک کرو۔ یہ میٹھا میٹھا ھپ ھپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کا کیا معاملہ اختیار کررکھا ہے؟

‪اسلام نے عورت کو گھر میں رکھا ،

فیمنسٹ (حقوقِ نسواں والے) اسے باہر کی دنیا میں کھینچ لائے ،

اب یہ ٹوٹ چکی ہے ۔۔۔۔ خاندانی نظام ، پہلی درسگاہ ، نسلیں ۔۔۔۔سب کچھ تباہ کردیا ۔۔۔۔۔

مساوات کی بات کرنے والے ان فیمنسٹوں کی دجالیت ملاحظہ فرمائیں !

 کہ مرد و زن کی مساوات مانتے ہیں مگر پھر عورت کی مظلومیت کا رونا بھی روتے ہیں ۔۔۔ کہ وہ گھر چلائے ، اللہ کی مخلوق کو جنم دے ، یا باہر کی مادی دنیا واسطے کام کرے ؟

یوں وہ کہتے ہیں کہ باہر کا کام تو ہرصورت لازمی ، فرض و واجب ہے کیونکہ عقیدۂ مساواتِ مرد و زن پر ایمان کو آنچ نہیں آنے دینی !

ہاں البتہ وہ خاندان  ، گھر ۔۔۔۔ یعنی اپنی اصل پر خدا حافظ اور لعن کردے !

اس کیلئے وہ یہود کے پیرو کار بھی آجاتے ہیں کہ تم ایک یا دو ہی کی پیدائش کرو ، اور ڈاکٹر تو ماشاءاللہ سے ہیں ہی خدمتِ انسانیت کیلئے ۔۔؟! یہ دوا کھاؤ اور بچہ قتل ۔۔۔۔۔۔

بہرحال مساواتِ مرد و زن کے عقیدہ کے مطابق انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ عورت کی مظلومیت پر دجالی ٹسوے نہ بہائے جائیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ جب آپ نے اسے باہر نکال دیا تو یہ اب کُرب و مصیبتوں کا تو اُسی طرح سامنا کرے گی جس طرح باہر مرد ہر روز ٹوٹ کر گھر قائم رکھتا ہے ۔۔۔۔۔

اب عورت کو باہر نکال دینے کے بعد آپ کو چاہئے کہ اسے صرف صبر و تحمل کی تربیت دیں ۔۔۔۔۔ یا پھر مساواتِ مرد و زن والا دجل ترک کرکے اسے واپس اس کی اصل جگہ پر پہنچادیں جہاں اسے اس کے خالق نے رکھا ہے ۔۔۔۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں