یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے 

انسانی زندگی مین روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا گزرتا ہے، جو انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بعض افراد اس واقع پر سوچ بچار شروع کر دیتے ہیں اوراکثریت اسکو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتی ہے ۔ایک ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا، جب میں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع کسی آفس میں ایک کام کے سلسلے میں گیا تو بلڈنگ کے نیچے اپنی موٹر سائیکل پارک کرنے کے دوران بلڈنگ کی چوکیداری پر مامور ایک فرد نے مخاطب ہو کر کہا کہ بھائی موٹر سائیکل سامنے مقررہ جگہ پر لگا دیں نہیں تو پولیس والے اٹھا کر لیں جائینگے ۔میں نے دل میں سوچا کہ انسانیت ابھی ختم نہیں ہوئی، بھلا مانس نیک دل انسان ہے، جو مجھے پریشانی سے بچانے کے لئے مجھے درست مشورہ دے رہا ہے۔ بھئی ہم نے بھی خوشدلی سے موٹر سائیکل بتائی ہوئی مقررہ جگہ پرپارک کر دی اور اپنے کام کی جانب ہو لیے ۔15 منٹ کے بعد جب میں اپنی موٹر سائیکل واپس لینے آیا تواسکو اپنی مقررہ جگہ پر پا کر دل ہی دل میں خوش ہوا اور اس نیک دل انسان کے لئے احترام ابھرنے لگا اور بڑی دعائیں نکلنے لگیں انسانیت ابھی ختم نہیں ہوئی ۔اس قول کا درس مجھے جھنجھوڑنے لگا اور میں خیالی دنیا میں کوچ کرنے ہی والا تھا کہ پیچھے سے آنے والی آواز نے پورے فلمی سین کو واپس اپنے موجودہ وقت پر لاکر روک دیا مخاطب ہونے والا وہ ہی نیک دل آدمی تھا جنھوں نے مجھے موٹر سائیکل پارک کرنے کا مشورہ دیا تھا مخاطب ہونے کہ بعد جو بات انھوں نے مجھ سے کی، وہ قطعا غیر متوقع تھی۔ ان صاحب نے جھٹ سے مجھ سے پارکنگ فیس کا مطالبہ کر دیا اور بولے بھائی کدھر چل دیئے ؟ پہلے پارکنگ فیس تو ادا کرتے جائیے پارکنگ فیس کے مطالبے کہ بعد انسانیت کے درس کا بھوت ایسا غائب ہوا کہ کسی پنہچے ہوئے عالم نے بھوت کو رفو چکر کر دیا ہو۔ چلیں ہم نے بھی ایک اچھے سچے پاکستانی کی حیثیت سے پارکنگ کی فیس کے پیسے اپنی جیب سے نکال لیے کہ یہ فیس قومی خزانے میں جائے گی ۔لیکن پیسے ان صاحب کو دینے سے پہلے ہم نے پارکنگ فیس کی مد میں دی جانے والی رقم کی رسید مطلب پرچی طلب کر لی لو بھائی رسید طلب کرنا ہمارے لئے جرم ثابت ہوگیا وہ صاحب تو مجھ پر آگ بگولہ ہو گئے کہنے لگے کراچی میں نئے آئے ہو کیا ؟میں نے کہا بھائی رسید طلب کرنے سے نئے یا پرانے آنے کا کیا مطلب ؟لیکن میں آپ کو اتنا بتاتا چلوں کے میں کراچی میں ہی پیدا ہوا ہوں اور اپنی زندگی کے 32سال ابھی تک کراچی میں ہی گزار چکا ہو ۔میں اپنی بات پر بضد تھا کہ پارکنگ فیس کی رسید مجھے دی جائے تب ہی میں رقم ادا کرو نگا۔ اب تو ان صاحب کا غصہ ساتویں آسمان پرچلا گیا۔ کہنے لگے کہ تم اپنی موٹر سائیکل یہاں سے لیجاکر دکھاؤ ۔جب بحث زیادہ بڑھنے لگی تو قریب سے گزرتے ہوئے لوگ بھی ہماری طرف متوجہ ہوگئے ۔اسی اثناء میں ایک بزرگ شخص نے مجھ سے ماجرا پوچھا ۔میں نے شروع سے آخر تک کی تمام روداد ان کے سامنے رکھ دی۔ تمام بات سننے کے بعد جو الفاظ ان عمر رسید فرد نے مجھ سے کہے وہ میرے لئے بڑے حیران کن تھے ۔وہ کہنے لگے بیٹا پیسے دے دو یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے ۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہے ۔لڑائی جھگڑے کا فائدہ نہیں ۔پیسے ادا کرو اور جاؤ ۔میں نے ان کے کہنے پر رقم تو دے دی لیکن سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ الفاظ ان صاحب کے تھے جن کے جھریاں یہ بتا رہی تھی کہ شاید پاکستان کو بنتے ہوئے انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا؟ ان کا چہرا صاف کہہ رہا تھا کہ ہم بے حس ہو چکے ہیں ہم کرپشن کی دلدل میں اس بری طرح سے پھس گئے ہیں کہ جہاں سے نکلنا شاید اب ممکن نہیں ہے ۔میرا ضمیر مجھے اس بات پر قائل کرنے لگا اور میرے ذہن نے پھر یہ کہا کہ اس طرح تو غذائی اجناس میں ملاوٹ کرنے والے بھی ٹھیک کر رہے ہیں ۔جعلی ادویات بیچنے والے بھی ٹھیک کر رہے ہیں ۔دودھ میں پانی ملانے والے بھی ٹھیک کر رہے ہیں ۔ناجائز منافع خور بھی ٹھیک کر رہے ہیں ۔رشوت لینے والا اہلکار بھی ٹھیک کر رہا ہیں ۔تعلیم کو کاروبار بنانے والا بھی ٹھیک کر رہاہیں۔اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے والے بھی ٹھیک کر رہے ہیں۔کرپشن کرنے والے کرپٹ سیاستدان بھی ٹھیک کر رہے ہیں ۔جعلی انکاؤنٹر میں مارے جانے والے افراد بھی ٹھیک مر رہے ہیں ۔یعنی جتنا بھی ملک پاکستان میں کرپشن اور بد حالی وہ سب ٹھیک ہے ۔۔۔کیو ں نا ہوبھائی کیونکہ’’ یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے ‘‘

حصہ
نعمان لودھی مختلف سماجی ویب سائٹس اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں،ایک رفاعی اور فلاحی تنظیم سے وابستہ ہیں۔فوٹو گرافی کا جنون کی حد تک شوق ہے۔پروفیشنل فوٹو گرافر بھی ہیں۔

5 تبصرے

  1. بہت خوب، معاشرتی حالات کو درست آئینہ دکھانے والی تحریر

  2. بھائی معذرت کے ساتھ اگر أپ کراچی میں ہی پیدا ہوئے تو آپکو رسید مانگنی ہی نہیں چاہیے تھی. یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر رسید کٹ بھی جائے تو پیسہ یا تو رسید کاٹنے والے کی جیب میں جاتا یا پھر رائے ونڈ یا پھر سرائے محل کی تعمیر میں.

  3. ہمارے ارد گرد اس طرح کے بہت سے مساءل ہے
    شکریہ اعجاز صاحب
    حمیرا صاحبہ بات آپ کی بلکل سہی ہے یہ تھوڑے تھوڑے پیسے کھربوں روپے بنتے ہیں

جواب چھوڑ دیں