کمّی عوام…… بلڈی سویلین

چار پولیس موبائلوں نے گلی کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا اور پھر سلور کار سے کالی وردی والے چار افراد اترے ایک  گھر کے برابر  سے نکلنے والی پتلی سی گلی میں جھانکا  اور گلی میں موجود بچے سے پوچھا یہ گلی باہر نکلتی ہے؟ بچے نے جوابا نفی میں سر ہلایا۔ اتنی نفری دیکھ کر محلہ والے تشویش زدہ  نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ  رہے  تھے۔  ان  میں سے ایک نے گھر کا دروازہ کٹھکھٹایا۔ اتنی دیر میں سب کو پتہ لگ گیا  کہ احمد کے گھر چھاپہ پڑا ہے۔  گھر سے برآمد ہونے والے جوان شخص سے وردی والے نے پوچھا عبداللہ کہاں ہے۔  وردی والے چار بندے دروازے پر دیکھ کر پریشانی بجا تھی۔  وردی والے نے ہاتھ میں پکڑے شناختی کارڈ اسے دکھاتے ہوئے کہا، یہ فلاں جگہ واردات سے ملا ہے اور گاڑی کے کاغذات بھی .

شناختی کارڈ پر لگی تصویر  پہچان کر اس نے کہا۔  ہاں یہ بھتیجا ہے میرا مگر اب بڑے بھائی یہاں نہیں رہتے اور  یہ شناختی کارڈ تو  6ماہ  پہلے ڈاکوؤں نے موٹر سائیکل پرس موبائل سب کچھ  چھین لیا تھا۔

 ہم نے اسکی ایف آئی آر بھی درج کروائی۔  آوازیں سن کر ساتھ ہی اندر سے بوڑھی دادی آگئیں کہ کیا بات ہے۔ انہوں نے بھی وہی تفصیل بتائی جو چچا بتا چکے تھے۔ بڑے بھائی اب چونکہ  یہاں نہیں رہتے،  بھتیجا بھی آفس گیا  ہوگا۔  وردی والوں کا اصرار تھا کہ ساتھ چلو اور گھر دکھاؤ۔ جناب بھائی اور بھتیجا دونوں آفس گئے ہونگے۔ اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہوگا۔ میں لے جا کر کیا کرونگا۔  بالآخر بہ مشکل  فون نمبر لے کر چلے گئے۔

اور پھر  عبداللہ کے والد سے فون پر رابطہ کیا کہ عبداللہ کو لے کر آدھے گھنٹے میں تھانے میں پہنچیں۔

تھانے میں تین افراد نے علیحدہ علیحدہ عبداللہ  کو الگ  لے جاکر بیان لیا۔ والد سے بھی طویل نشست کی۔ بیان لئے گئے اور بالآخر 5/6 گھنٹے بعد  کلیئر کر دیا۔ اس دوران گھر والے کتنی اذیت سے دوچار رہے۔ کس کس طرح کے سوالات اور نظروں کا سامنا کرنا پڑا۔

اب یہ بھی پڑھیے

 رات ڈیڑھ بجے پولیس وین آتی ہے کچی آبادی میں ایک   گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے۔ ایک دروازے ایک چھت پر سے اندر  دیکھتا رہتا ہے  دروازہ کھلوا کر خاتون کو زبردستی وین میں بٹھا کر لے جاتے ہیں۔ شوہر پوچھتا رہتا رہ جاتا ہے کہ ہوا کیا ہے۔ میں بھی ساتھ  تھانے چل رہا ہوں مگر پولیس والے بغیر لیڈی پولیس کے  صرف خاتون کو لے گئے۔ یہ خاتون گھر پر لوگوں کے کپڑے سیتی تھی۔  لوگوں گھروں پر بھی سلائی کے کپڑے لینے دینے جاتی تھی۔ ان میں سے کسی کے  گھر چوری ہوگئی۔ شبہ میں  اس خاتون کا نام بھی لے دیا۔

یہ دونوں بے گناہ تھے  جو بعد میں ثابت بھی ہوگیا کہ بے گناہ ہیں۔ مگر  یہ کونسا قانون ہے جو  انہیں اجازت دیتا ہے کہ آپ عزت داروں کی عزت اچھالیں جبکہ  ابھی جرم ثابت نہیں ہوا۔ مگر لوگوں کی نظر میں مجرم بنا دیا گیا۔ باقاعدہ نفری کے ہمراہ چھاپہ مار کر آدھی رات میں عورت کو  بغیر لیڈی پولیس  حراست میں لینا شوہر کی التجا کے باوجود شوہر کو ساتھ نہ لیکر جانا، کتنا ذلت آمیز سلوک ہے۔  جیسے عوام کمّی اور ذلیل ہے ان کی کوئی عزت ہی نہیں۔ جب چاہے جہاں چاہے ذلیل کرو یا جعلی پولیس مقابلوں میں مار دو۔

دوسری طرف یہی پولیس والے بڑے جاگیرداروں اور لمبے ہاتھ والوں کے جوتے چاٹتے نظر آتے ہیں۔

 

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

5 تبصرے

  1. معاشرے میں پھیلا کرپشن اور بد عنوانی کی مصنفہ نے بہت اچھی تصویر کشی کی ہے، اور اس واقعہ تو فرد جرم عائد نہیں کیا گیا ورنہ ہمارے ملک میں بےگناہ کو سزا بھی ہو جاتی ہے۔ بہت اچھی تحریر ہے

  2. بہت عمدہ انداز سے حقیقی واقعہ تحریر کیا ہے۔ ایسا ہی ہو رہا ہے، عام آدمی کا کوئ پرسان حال نہیں۔ پولس جس کو چاہے مجرم بنا دے۔۔۔

  3. عمده تحرير بلكل ايسا هي واقعه همارےعلاقه ميں بهی پیش ايا رينجرز نے كاروائي كى تهى.

  4. I’m writing on this topic these days, casino online, but I have stopped writing because there is no reference material. Then I accidentally found your article. I can refer to a variety of materials, so I think the work I was preparing will work! Thank you for your efforts.

Leave a Reply to عشرت زاہد