سر سید احمد خان کا جشن دو صد سالہ اور معصوم سی الجھن   

 

  دنیا بھر میں یہ سال  جناب سر سید احمد خان کی دو سو سالہ پیدائش  کے حوالےسے جشن دو صد سالہ کے طور پر منایا جارہا ہے

بلا مبالغہ  سر سید احمد خان کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کے افکار و نظریات کی تذکیر کی ہر   آنے والے دور میں ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے – جہاں جہاں ہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں وہ کسی نہ کسی حوالے سے سر سید احمد خان  کی خدمات کو یاد رکھتے ہیں

گزشتہ دنوں جا معہ   کرا چی کے شعبہ اردو  میں جشن دو صد سالہ کی تین روزہ کانفرنس  منعقد  ہوئی- جس میں ملک بھر سے اسکالر اور ماہر ین تعلیم شریک ہوئے ۔ویسے عجیب سی بات ہے کہ جس زبان اور جس فکر سے سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو  دور رکھنا چاہا اسی ” شعبہ اردو ” نے ان کو عزت بھی بخشی – اصولا ہونا تو یہ چاہیے تھے کہ یہ سمینار  انگریزی ڈپارٹمنٹ ، فزکس ، کیمسٹری یا   کو کرنا چاہیے تھا۔

 کانفرنس میں  مدعو تمام مقررین اس بات پر یکسو تھے کہ سرسید   احمد خان  نہ صرف ہندوستان میں  جدید تعلیمی فکر کے بانی تھے بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ   ہندوستان میں فرنگی و ہندو سماج کے ستائے ہوئے مسلمانوں کے لئے امید کی کرن  بھی تھے – چنانچہ  کانفرنس میں زیادہ تر  مقالے ان کی فکر  جدید ، تعلیمی خدمات اور انگریزی تہذیب و تمدن کی  خوبصورتی و فوائد پر شرکاء کے سامنے رکھے گئے۔

سر سید  کا کمال یہ بھی تھا کہ آپ نے   ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں با عزت قوم بنانے کے لیے  نہایت نازک وقت میںنعرہ علوم  جدید یہ   بلند کیا  – سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے نہ صرف اپنی تمام توانا ئیا ں  لگادیں بلکہ بہت سے اپنوں کی بھی شدید ترین مخالفت مول لی –

سرسید كا نقطہ نظر تھا كہ مسلم قوم كی ترقی كی راہ تعلیم كی مدد سے ہی ہموار كی جا سكتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ جدید تعلیم حاصل كریں اوار دوسری اقوام كے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلكہ مسلمانوں كے لیے جدید علوم كے حصول كی سہولتیں بھی فراہم كرنے كی پوری كوشش كی۔ انہوںنے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم كی طرف مسلمانوں كو راغب كیا۔ انہوںنے انگریزی كی تعلیم كو مسلمانوں كی كامیابی كے لیے زینہ قرار دیا تاكہ وہ ہندوئوں كے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل كر سكیں۔

 سر سید   کی  اس تحریك  جدیدیت کا ساتھ دینے والوں میں  محسن الملك٬ وقار الملك٬ مولانا شبلی نعمانی٬ مولانا الطاف حسین حالی٬ اور مولانا چراغ علی خاص طور پر نمایاں طور پر اگے آگے رہے –

 اسی طرح ان کے  اوپر تنقید کرنے والوں میں میں بھی بہت سے نام ہیں -ایک نام تو اکبر الہ آ بادی کا ہے جنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سر سید احمد خان کی فکر جدید اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ” مرعوب سوچ ” کی بروقت نشاندھی کی – نواب محسن الملک ، اور مولانا محمد علی جوہر جیسے گوہر نایاب بھی کچھ عرصہ ساتھ چلنے کے بعد سر سید احمد خان کی ” نیچریت -اور محبت افرنگ ” کے حصار سے باہر نکل آئے – اس وقت کے جید علمائے کرام تو سر سید کی تفسیر قرآن اور اسلا م کے بارے میں  ان کی بنیادی اصطلا حوں  میں ابہام کے باعث روز اول سے ہی ان کے مخالف تھے –

اس تمام تر اختلاف کے باوجود اگر اسلا م سے علیحدہ کرکے دیکھا جائے تو سر سید احمد خان کی مسلمانوں کو جدید علوم سے روشناس کروانے اور ان پر دسترس حاصل کروانے کی ترغیب  و سعی  اور سرسیدخان کی نیت و اخلاص    پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا  –

مگر  موجودہ دور کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے سرسید کی پیدائش کے دو سو سال مکمل ہوجانے پر بہت معصومانہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا سرسید احمد خان  کی تمام  تر جدوجہد اور محنت کا حاصل محض انگریزی تعلیم کا حصول اور فرنگی طرز کی بود وباش اپنانا تھا ؟؟؟

ہاں اگر تو یہی مقصد تھا تو ان کی وفات کے    ٹھیک ایک سو بیس سال بعد ہم آج اپنے درست مقام پر ہیں –

کیونکہ اب ہم  اپنے تہذیبی ورثے سے مکمل لاتعلق ہوچکے ہیں  – اردو کی جگہ رومن رسم الخط نے لے لی ہے – نظام تعلیم بھی عین سر سید احمد خان کی توقعات کے مطابق چل رہا ہے – اردو کو اس کا جائز مقام مل چکا ہے کہ نہ اردو میڈیم اسکول ہیں نہ ہی ان میں درمیانے درجے کے   اساتذ ہ موجود ہیں تعلیمی بجٹ ہے یا نہیں حکومت اس ذمہ داری سے لاتعلق ہوچکی ہے۔

یقینا سر سید احمد خان  اپنے خواب کی اس قدر بھیانک تصویر نہیں دیکھنا چاہتے ہوں گے

ہم نے سر سید کے افکار کا محض سطحی انداز میں جائزہ لیا اور دو سو سالہ جشن پیدائش منانے نکل کھڑے ہوئے – دنیا بھر میں اس سال اس حوالے سے ہزاروں تقا ریب ہوں گی اور سینکڑوں دانشور حضرات سر سید کی فکر جدید پر اپنے قیمتی مقالے پیش کریں گے – ہزاروں صفحات تعریف و توصیف سے کالے کے جائیں گے – مگر کوئی ایک تو ہو جو اس معصومانہ سوال کا جواب دے – ؟

کیا آج   ہم آکسفورڈ ، ہارورڈ ، اسٹنڈ فورڈ ، کولمبیا یونیورسٹیز   اور بہت سے ان جیسے اداروں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا چکے ؟

اگر یہ سب سر سید احمد خان کی سوچ فکر اور رہنمائی کا نتیجہ ہے تو پھر یہ بھی  تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم  سر سید احمد خان  کے بعد ایک سو بیس سال میں بھی  اپنی منزل کو نہیں پہنچے کیونکہ اس عرصے میں ہم نے  کوئی ایک بھی قابل ذکر چیز ایجاد نہیں کی۔

عا لم انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ایک دھیلے کا کارنامہ سر انجام نہیں دیا – اگر آپ میں سے کسی کے پاس کوئی  ایجاد و  مسلمانوں کی دور حاضر میں کوئی دریافت ہے جو  اس نظام تعلیم اور فکر جدید نے بہم پہنچا ئی  ہے تو جواب کا منتظر میں ہی نہیں ہزاروں تاریخ کے طالبعلم ہیں۔

ہمارا عالم تو معاف کیجئے گا یہ ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم کے عطیہ کے ہوئے گلے کے ہار کو چوری کرکے  اپنی اہلیہ کے ذاتی استعمال میں دینے والا بھی اسی جدید نظام تعلیم کا فرد تھا – ملک کا سرمایہ لوٹ کر تجوریاں بھرنے والے بھی اسی سسٹم سے نکل کر ہم پر مسلط ہوئے –

آج پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے نام سے اعلی تعلیم کے فروغ کا ادا رہ  حکومتی امداد کے لئے دھکے کھا رہا ہے – سر سید احمد خان کی جدید فکر کے پروردہ طبقے نے سر سید احمد خان  کے پروں میں گھنگرو باندھ کر  مدرسے اور تعلیمی ادارے کے چندہ جمع کرنے کا بہت سطحی مطلب لیا – سر پر شراب کا گلاس لئے رقص کرنے ولا مسلمان حکمران بہت بڑے نامی گرامی انگریزی  سسٹم  کا  فارغ التحصیل تھا –

معاف کیجئے گا آج سر سید احمد خان کے دو سو سا ل  کا جشن منا  کر فارغ ہولیں  اور وقت ملے تو میرے معصوم سے سوالوں کا جواب بھی دے دیجئے گا-   میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج ان محبان سر سید  کی ان حرکتوں پر روح سید خوش نہیں بلکہ رو رو کر کہہ رہی ہوگی کہ “میں نے جو خواب  تمہیں دکھایا تھا یہ اس کی تعبیر تو نہیں ہے۔نادانو!

 

حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں