کسی بھی ملک اور معاشرے کی قسمت اور خوشحالی تعلیم سے وابستہ ہوتی ہے۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات ترازو کی طرح قائم کر دی گئی ہے کہ معیاری تعلیم اچھی نصابی کتب کے ذریعہ فراہم کی جاسکتی ہے۔بالکل اس حقیقت سے ہم سرموئے انحراف نہیں کر سکتے ہیں کہ کتاب حصول علم کا ایک کارگر وسیلہ ہے لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ بغیر استاد کے یہ وسیلہ اپنی افادیت گنوا دیتا ہے۔کتابیں معلومات کی فراہمی میں نہایت کار گر ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن سماج میں تبدیلی اور انقلاب کا نقیب کتاب نہیں بلکہ استا د ہوتا ہے۔ قوموں کی قسمت کی تبدیلی کا کام کتابیں نہیں بلکہ استاد انجام دیتے ہیں۔تعلیم جو تربیت سے عاری ہو وہ تعلیم نہیں محض معلومات کا ڈھیرکہلاتی ہے۔جس کتاب کے الفاظ کے پیچھے استاد کی زندہ شخصیت، جانفشانی و جفاکشی، اور جذبہ تعمیر و تبدل موجود نہ ہووہ کتاب بے جان الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔جس تعلیمی نظام میں استاد کو مرکزی اور قابل قدر حیثیت حاصل نہیں ہے وہ نظام ایک مہذب ڈھونگ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔اپنے مضامین میں بارہا میں نے ایک بات پیش کرنی کی کوشش کی ہے کہ ’’استاد کتاب نہیں بلکہ زندگی پڑھاتا ہے۔‘‘استاد کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھناضروری ہے کہ وہ معلومات کے فراہمی کا ایک آلہ نہیں بلکہ وہ قوم و انسانیت کا معمار ہے۔کمرۂ جماعت معلومات کی فراہمی کا ایک پلاٹ فارم ضرورہے لیکن یہاں پر استاد اپنی حکمت اور علم کی توانیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انسانیت اور معاشرے کی تعمیر انجام دیتا ہے۔استاد کے لئے کتاب صرف نصابی سرگرمیوں کی ادائیگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ استاد اگر استاد ہے تو وہ کتاب کیسی بھی کیوں نہ ہو وہ اپنے مطلب کی چیزیں اس سے برآمد کر لے گا۔سیکولرازم کی کتاب سے اسلامیات اور اسلامیات کی کتاب سے سیکولرازم برآمد کرنا ایک استاد کے لئے معمولی کام ہوتا ہے۔تربیت کے لئے استاد کے پاس بڑی اور اعلیٰ ڈگریوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ تربیت کے جذبے سے سرشار استاد خواہ اس کی ڈگری معمولی اور چھوٹی کیوں نہ ہو تربیت کے جذبے سے عاری اعلیٰ ڈگری کے حامل استاد سے تربیت سازی کا کام بہتر انجام دیتا ہے۔ بڑی ڈگریوں کے حامل اساتذہ اگر تربیت کے جذبے سیعاری ہوں تب بڑی بڑی تعلیمی ڈگریوں کے باوجود بھی وہ چھوٹی سی تربیت کے کام بھی انجام نہیں دے سکتے ہیں۔تدریس آدمی کو ایک اچھی مشین اورمہذب جانور تو بنا سکتی ہے لیکن ایک اچھا انسان بنانا اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔تربیت کا زیور ہی اسے شرف انسانیت سے سرفراز کر تاہے۔تربیت کے بغیر ایک اچھے انسان کی تعمیر کا تصور محال نظرآتا ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ ’’اچھے استاد کے ہاتھ میں بری کتاب بھی اچھی بن جاتی ہے اور اچھے استاد کے بغیر اچھی کتا ب بھی بری ہوجاتی ہے۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کا دارو مداراس کی نوجوان نسل پر منحصر ہوتا ہے۔جو لوگ اپنے مستقبل کو محفوظ اور تابناک بنانا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح پر خاص توجہ دیں۔جس قوم نے بھی اپنی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور اصلاح میں کوتاہی سے کام لیا ہے اسے اغیار کے رحم و کرم پر زندگی گزارنی پڑی ہے۔تعلیم و تربیت کی کوتاہی نہ صرف قوموں کی شناخت مٹا دیتی ہے بلکہ سیاسی طور پر ان کو بے حیثیت بھی کر دیتی ہے۔آج ملت اسلامیہ کے زوال اور ناگفتہ بہ حالات کے ذمہ دار سیاسی اسباب ہونہ ہو لیکن تعلیم و تربیت سے برتی جانے والی مجرمانہ غفلت ضرور ہے۔نسلوں میں پرورش پانے والی غلطیوں اور خرابیوں کی ذمہ داری والدین اور اساتذہ پر مساوی طورپر عائد ہوتی ہے۔ماں باپ ،اساتذہ اور معاشرے کے وہ افراد جن پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہیں دراصل یہی افراد خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔ان افراد کی کوتاہیاں فی الفور نہیں بلکہ بیس پچیس برس بعد نمودار ہوتی ہیں۔دوراندیش اور ملی فکر سے سرشار افرادجو کسی نسل کے مستقبل کی کامیابی اورناکامی کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں وہ بڑے درست طریقے سے اس بات کا کمرہ جماعت میں اندازہ قائم کر لیتے ہیں اور اپنی تما م تر توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور نشوونما میں صرف کردیتیہیں۔
اسکول زندگی کی ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں پر زندگی کے مسائل کا حل اور عوارض کا تریاق تیار کیا جاتا ہے۔وہ افراد جو ان وسائل کی فراہمی ،مسائل کے سدباب اور تریاق کی تیاری میں منہمک رہتے ہیں ان کو زمانہ اساتذہ کے نام سے جانتا ہے۔اسکول میں زندگی سے متعلق ہر شئے کا علم فراہم کیا جاتا ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے خواہ وہ دنیوی زندگی ہویا اخروی۔استاد زندگی کے اسرار و رموز اور تصورات و واقعات ، فطری اور انسانی اصولوں کو اپنی علمیت کے ذریعے طلبہ کو سمجھاتا ہے۔استاد کمرۂ جماعت میں اپنے آپ کو ایک واعظ کے طور پر نہیں بلکہ ایک رہبر اور رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے ۔طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے جس کی وجہ سے ان کی ذات اور زندگی کے واقعات پر پڑے ظلمتوں کے پردے اٹھنے لگتے ہیں ۔ طلبہ کی سوچ و فکر میں سنجیدگی،متانت اور پختگی پیدا کرنے کی فرض شناس اساتذہ ہر پل کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کمرۂ جماعت اسکول کاوہ حصہ ہے جہاں استاد کی اپنی فرماں روائی ہوتی ہے اور اس کے حکم کا سکہ چلتا ہے۔ اسی لئے کمرۂ جماعت کو تعمیر و تخریب کا منبع کہا گیا ہے۔حقیقی استاد اپنی تربیت کے ذریعے طلبہ کو ایک ایسابیج بنادیتا ہے جس میں سایہ دار اور ثمر آور درخت بننے کی تما م خصوصیات بدرجہ اتم موجودرہتیہیں جس کووہ اسکول خاص طور پر کمرۂ جماعت کی ساز گار زمین میں بو کرر اپنے علم کی برکھاسے اس کی آبیاری کرتا ہے ۔جس کی وجہ سے باغ انسانیت مہک اٹھتا ہے اور دنیا میں انسان سکون ،چین و امان پاتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے استاد بچوں میں مثالی تصورات کو جاگزیں کرتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق اور انسانی اقدار کو فروغ دیتا ہے جن کی بنیادوں پرطلبہ کی سماجی شناخت استوار ہوتی ہے۔اسی لئے کمرۂ جماعت کے انصرام کے لئے استاد میں بنیادی قابلیت اور دانش مندی کا پایا جانا بے حد ضروری ہے۔درج ذیل سطور میں ان نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر عمل پیرا ہوکر اساتذہ کمرۂ جماعت پر نہ صرف قابو پاسکتے ہیں بلکہ موثر تدریس اور اعلیٰ تعلیم و تربیت کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
کمرۂ جماعت پر قابو پانے میں ناکام استاد موثر تدریسی فرائض کی انجام دہی پر قادر نہیں ہوتا ۔کمرۂ جماعت پرقابو پائے بغیر استاد کی ہر کوشش بے کار و بے سود ثابت ہوجاتی ہے۔طلبہ کو جب احساس ہوجاتا ہے کہ ان کا استاد کمرۂ جماعت پر قابو پانے میں ناکام ہوگیا ہے یا وہ کمرۂ جماعت پر قابو رکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا تب کمرۂ جماعت میں ان سے غیر مہذب ،غیر شائستہ برتاؤ، غیر تعلیمی اور اکتساب میں مانع حرکات و تخریبی واقعات کااظہاہونے لگتا ہے ۔اسی غیر صحت مند برتاؤ کی وجہ سے کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط درہم برہم ہوجاتا ہے اور استاد تدریسی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ایک ابتر نظم و ضبط ،شکستہ اور تفرقہ پرور حالات سے بھرا کمرۂ جماعت درس و اکتساب کا مرکز بننے کے بجائے طلبہ کی عدم دلچسپی اور تفرقہ پروری کی آماجگا ہ بن جاتا ہے۔ایسے نامساعد حالات میں اکتساب تو دور تدریسی سرگرمیوں کی انجام دہی بھی ناممکن ہوجاتی ہے ۔ کمرۂ جماعت پر قابو نہ رکھنے والا استاد بہترین تدریسی صلاحیتیں رکھنے کے باوجوددرس و تدریس سے متنفر ہوکر تکلیف دہ تدریسی دباؤ (Teaching Stress)کا شکار ہوجاتا ہے۔تدریسی دباؤ کے شکنجے میں جکڑے استاد میں ذوق و شوق،امید و حوصلہ اور جوش و ولولے کا فقدان یا کمی پائی جاتی ہے۔ا یسے طلبہ جو پرسکون ماحول میں اکتساب کے خواہاں رہتے ہیں وہ بھی کمرۂ جماعت کے ابتر نظم و ضبط اور شورو غل کی وجہ سے خود کو سیکھنے سے عاجز پاتے ہیں۔لاکھ کوشش کے باوجود اپنی توجہ و انہماک کو جٹانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں نظم و ضبط کے فقدان کے باعث لائق طلبہ کے علاوہ خراب برتاؤ کے حامل طلبہ بھی پڑھنے اور سیکھنے میں رفتہ رفتہ دلچسپی کھو بیٹھتے ہیں۔ بہر کیف استاد کا کمرۂ جماعت پر کنٹرول نہ رکھ پاناایک ایسا نقص ہے جس کی وجہ سے کمرۂ جماعت کا مجموعی نظم و ضبط تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ان وجوہات کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ استاد کمرۂ جماعت پر قابوپانے کے طور طریقے نہ صرف سیکھیں بلکہ ان میں مہارت پیدا کرے تاکہ طلبہ کے خراب برتاؤ پر قابو پایا جاسکے۔ کمرۂ جماعت کی فضاء کو اکتساب اور درس وتدریس کے لئے سازگار بنایا جاسکے ۔ ساتھ ہی ساتھ درس و تدریس اور اکتساب کے عمل کو بے کیف اور بیزارگی سے محفوظ بنایا جاسکے۔طلبہ میں جوش و ولولہ ،اخلاق و اطور اور بہتر نظم و ضبط کی کیفیت کو پروان چڑھایا جاسکے۔طلبہ کے غیر پسندیدہ اور تخریبی رویوں کا اساتذہ جب بروقت سامنا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو کمرۂ جماعت کی فضاء اکتساب کے لئے تروتازہ اور خوش گوار ہوجاتی ہے۔کمرۂ جماعت کے ابتر اور غیر صحت مند ماحول کواپنی قابلیت اور حکمت عملی سے زیر قابو رکھتے ہوئے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کو اساتذہ آسمان کی بلندیا ں فراہم کرسکتے ہیں۔طلبہ کے ابتر برتاؤ کے لئے ذمہ دارو جوہات ہی کمرۂ جماعت کی اکتسابی و تدریسی فضاء کو مکدر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ذیل میں چند قابل ذکر وجوہات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔
(1)طلبہ جب اکتساب اور سیکھنے کے عمل کو غیر دلچسپ ،بے کار اور حد درجہ آسان تصور کر تے ہیں تو ان کی توانائی کا رخ ایسی، خو د تخلیق کردہ سرگرمیوں کی سمت گامزن ہوجاتا ہے جس سے جماعت کا نظم و ضبط بگڑنے کے قوی امکاناتپیدا ہوجاتے ہیں۔
(2)جب طلبہ اپنے اکتساب کی سطح کو دوسروں کے اکتساب کی سطح سے ابتر یا نیچے تصور کرتے ہیں تو ان میں اکتساب اور آموزش سے عدم دلچسپی پروان چڑھنے لگتی ہے ۔جس کی وجہ سے ان میں غیر پسندید ہ ،غیر مہذب ،غیر شائستہ برتاؤ اور تخریبی کیفیات سر ابھار نے لگتی ہیں جو کمرۂ جماعت کے نظم وضبط کو برباد کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔
(3)عدم دلچسپی،عدم توجہ کے باعث طلبہ استاد کی تدریسی ہدایات اورسبق کی تفہیمی مکالموں کو واضح سماعت کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمرۂ جماعت میں بات چیت اور دیگر غیر ضروری کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
(4)اپنی اکتساب کمزوریوں کو چھپانے ،ہم جماعت ساتھیوں یا دیگر افرادکی توجہ پانے کی کوشش میں اپنی توجہ گنوا بیٹھتے ہیں اور غیر کارآمد سرگرمیاں اور نا پسندیدہ برتاؤ کا ان سے اظہار ہونے لگتا ہے۔
(5) طلبہ کے جارحانہ برتاؤ ،ہر بات پر حد سے تجاوز کرنا یا غیر متوازن ردعمل کی وجہ اکثر ان کا خراب سماجی پس منظر و ماحول ہوتا ہے۔
(6)کمرۂ جماعت میں نظم و ضبط کی برقراری کے لئے نظم و ضبط کے قاعدے اور قوانین کے فقدان کے سبب کمرۂ جماعت پر قابوپانے میں اساتذہ ناکام ہوجاتے ہیں۔
کمرۂ جماعت میں طلبہ کو نظم و ضبط کا پابند بنانے اور ان پر قابو رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ نظم و ضبط کی برقراری کے لئے بہتر قاعدے اور قوانین مرتب کریں ۔نظم و ضبط کی حکمت عملیوں کو مرتب اور نافذ کرتے وقت بہت دانش مندی سے کام لیں۔تشدد اور جارحیت کاہرگزمظاہر نہ کریں۔ صبر وتحمل سے کام لیں۔ درج ذیل مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ بچوں کے خراب برتاؤ پر قابو پانے، کمرۂ جماعت میں پسندیدہ اقدار و مزاج کو پروان چڑھانے کے ساتھ کمرۂ جماعت کا ماحول خوش گوار اور درس و تدریس کو اپنی معلنہ منصوبوں کے تحت انجام دینے کے لائق بن سکتے ہیں۔
(1)کمرۂ جماعت میں تدریس کے دوران استاد کی نظر جماعت کے تمام طلبہ پر رہے اور ہر طالب علم یہ محسوس کر ے کہ ان کی ہر سرگرمی پر استاد کی گہری نظر ہے۔بچوں میں جب یہ احساس جاگزیں ہوجاتا ہے تب کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط بڑی حد تک قابومیں رہتا ہے۔
(2)طلبہ کے خراب برتاؤ پر اپنی ناراضگی کا اظہار ضرور کریں لیکن انہیں ہدف تنقید و ملامت نہ بنائیں۔طلبہ کے خراب برتاؤ کی وجہ سے آپ کو پہنچنے والی تکلیف کے بارے میں انہیں آگاہ کریں اور بتائیے کہ خراب برتاؤ کی وجہ سے کسی کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔طلبہ کو ان کے برتاؤ میں تبدیلی اور بہتری پیدا کرنے کی تلقین کریں۔
(3)جماعت میں اگر کوئی طالب علم دوسروں کو تنگ یا پریشان کر رہاہے تب اس کے پاس جاکر اس کی وجہ دریافت کریں۔پریشانی کی وجہ کا سد باب کریں اور برتاؤ کی اصلاح کے لئے واضح احکامات صادر کریں۔تدریسی سرگرمی کو چند لمحات کے لئے روک کر واضح احکامات صادر کرنا ،تمام طلبہ پر کڑی نگاہ رکھنا اور خراب برتاؤ پر قابو پانے والی حکمت عملیوں پر عمل کر تے ہوئے استاد بچوں کے خراب برتاؤ اور تدریسی الجھنوں پرقابو پانے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
(4) خراب برتاؤ اور کمرۂ جماعت میں گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کی اکثریت دباؤ (Stress)کا شکار ہوتی ہیں اور اسی دباؤ کی وجہ سے وہ خراب برتاؤ کا مظاہرہ کرتے ہیں استاد ایک مربی اور رہنما کی طرح ان کے دباؤ کی وجوہات معلوم کرے اور انھیں دباؤ کے بھنور سے باہر نکالیں۔ استاد کا یہ اقدام کمرۂ جماعت کے ماحول کو خوش گوار بنانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی زندگی کو بدلنے میں معاون ہوتا ہے۔
(5) دوسروں کے سامنے گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کریں ان کے خراب برتاؤ کا تذکرہ کرنے کے بجائے ان کی اچھائیوں کو بیان کریں۔گڑبڑ پیدا کرنے والے طلبہ کے ساتھ استاد اپنا کچھ وقت گزرے ۔ ان کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے ان میں احساس ذمہ دار کے جذبے کو پروان چڑھائیں۔طلبہ میں احساس ذمہ داری کا جذبہ جب فروغ پانے لگتا ہے طلبہ اپنے آپ، خراب برتاؤ سے گریز کرنے لگتے ہیں۔
(6)طلبہ کو سمجھائیں کہ کسی بھی خراب برتاؤ کے نتیجے میں تعلقات متاثر ہوجاتے ہیں اور کشیدہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔تناؤ اور تنازعات کی اصل وجہ بھی بیشتر موقعوں پر خراب برتاؤ ہی ہوتا ہے۔طلبہ کو عمل اور ردعمل پیش کرنے میں احیتاط برتنے کی تلقین کریں۔
(7)کمرۂ جماعت کے نظم وضبط (ڈسپلن) کی برقراری کے لئے اصول و ضوابط مرتب کریں تاکہ بچوں کے خراب اور الجھنیں پیدا کرنے والے برتاؤ پر قابو پایا جاسکے۔اچھا برتاؤ پیش کرنے والے طلبہ کی ستائش کریں تاکہ خراب برتاؤ کے عادی طلبہ کوتحریک ملے اور وہ اپنے خراب برتاؤ کو ترک کردیں۔
(8) کمرۂ جماعت میں نظم وضبط کی خرابی میں قوت ارتکاز کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ طلبہ میں قوت ارتکاز کے فروغ سے خراب برتاؤ پرباآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اساتذہ طلبہ میں قوت ارتکاز(Power of Concenteration)پیدا کریں۔طلبہ میں اچھی صحت مند سماجی مہارتوں کو فروغ دیں۔عزت نفس(Self-esteem)کی اہمیت سے واقف کرائیں اور عزت نفس کو پامال کرنے والے عناصر و عوامل سے آگاہ کریں تاکہ طلبہ اپنی عزت نفس اور وقار کا تحفظ کر سکیں۔اکتسابی معذوریوں اور کمزوریوں کا شکار طلبہ کے مسائل کو پیار و شفقت سے دور کریں اور ان میں اعتماد کی فضا بحال کرے۔اکتسابی الجھنو ں اور معذوری سے دوچار طلبہ سے بھی خراب اور ناپسندیدہ برتاؤ کا اظہار ایک عام بات ہے۔خراب برتاؤ اور برے اخلاق سے ہونے والی تباہ کاریوں سے طلبہ کو مطلع کریں تاکہ ان کی زندگی کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
(9)منفی اور مثبت برتاؤ کے درمیان اساتذہ توازن برقرار رکھیں۔ شدت پسندی اور لاپرواہی( تجاہل) سے ہر گز کام نہ لیں۔مثبت سرگرمیوں اور اچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو بھی لگاتار رہنمائی اور رہبری کی ضرورت درپیش ہوتی ہے تاکہ ان کے برتاؤ میں مزید نکھار پیدا ہوا اور وہ اپنے کام کو مزید بہتر بنا سکیں۔
تعلیم تدریس سے مختلف ہوتی ہے بہت سے لوگ پڑھا سکتے ہیں لیکن تعلیم دینے والے بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں۔وہ معاشرہ جو اعلیٰ تصورات ،اخلاق اور انسانی اقدار پر قائم نہ ہو وہ ایک بے جان معاشرہ کہلاتا ہے اور ایسے معاشرے کے افراد اخلاقی اقدار سے عاری ااجڈ اور گنوار ہوتے ہیں۔اسکول زندگی سے وابستہ ہر چیز کا علم فراہم کرتا ہے۔ مختصریہ کہ’’ اسکول میں زندگی سیکھائی جاتی ہے۔‘‘اسکول میں طلبہ کو اس قابل بنا یا جاتا ہے کہ وہ فطری اور انسانی اصولوں کو سمجھ سکے۔اسکول کے بتائے گئے راستے پر چل کر طلبہ موجودات و واقعات سے پردہ اٹھاتے ہیں ان کی سوچ و فکر میں سنجیدگی اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔قصہ مختصر اسکول ایک ایسی عبادت گاہ ہے جہاں استاد ایک متبرک اور مقدس حیثیت رکھتا ہے۔ اساتذہ اپنے مقام و مرتبے کا خاص خیال رکھیں۔تعلیم میں صبر و استقامت کی بہت اہمیت ہے۔تعلیم وتربیت ایک مقدس کام ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ زندگی کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔استاد اپنے آپ کو ایک مثالی نمونے کے طور پر پیش کرنے کے ساتھ مطلوبہ نتائج کے حصول میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ بہتر نتائج کا انتظار صبر و استقامت کے ساتھ کرے۔تربیت میں عجلت تباہ کن ہوتی ہے۔اسی لئے اساتذہ تعلیم و تربیت میں صبر و تحمل اور استقامت کا دامن ہرگز نہ چھوڑیں۔
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...