ہمارا بدلتا معاشرتی رویہ 

کسی بھی معاشرے میں بسنے والے افراد کا اخلاقی اور معاشرتی رویہ اس قوم کی پہچان کا سبب ہوتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات میں ہمارا مثبت یا منفی رویہ، محبت یا نفرت کے جذبات، خلوص یا ریاکاری،غصہ یا جذباتیت پر مبنی رویے ہماری قومیت کی پہچان ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم، سماجی پس منظر، خاندان اور وراثت میں ملنے والی جینز کی خصوصیات ہمارے رویوں کی تشکیل کرتے ہیں اور اگر ہم تعلیم یافتہ ہیں اور شعور رکھتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ اس کا اظہار ہمارے رویے میں بھی ہوگا۔اور پھر یہی رویہ عالمی دنیا میں ہماری پہچان اور شناخت بنے گا۔
اب اگر آج کل کے دور کو دیکھا جائے اور عام لوگوں کے رویوں اور سوچ کا مشاہدہ کیا جائے تو پتا یہ چلتا ہے ہے کہ ہم نہ صرف مالی طور پر بلکہ سماجی سطح پر زوال پذیر ہیں۔ہمارے عام رویے ایک دوسرے سے بغض عناد اور منافرت کا جذبہ لئے ہوئے ہیں۔ شاید کہیں کہیں خلوص کی ایک ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے اور دل کو گمان ہوتا ہے بنی نوع انسان کا دل ابھی مکمل طور پر مردہ نہیں ہے مگر اجتماعی طور پر معاشرے کے ہر فرد کا رویہ اس بات کا مظہر ہے کہ اب فرد میں اپنے ہم نفسوں کے لئے وہ محبت نہیں رہی جو کبھی آباءواجداد کا خاصہ تھی۔
اس کی بنیادی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ آج کا دور نفسا نفسی کا دور ہے۔ہر شخص اپنے آپ میں مگن صرف اپنے آپ کے بارے میں سوچتا ہے۔ اپنی زندگی میں بہت مصروف ہے کہ اس کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائے اور مشاہدہ کرے اس کے ہم نفس انسان کس حال میں ہیں۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے میری ایک کولیگ ذکر کرنے لگیں!
” ملک میں اس قدر بے یقینی اور شک کی فضا ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کی مدد کرنے سے بھی کتراتا ہے۔”
میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں ” بک سینٹرسے کتاب لے کر نکلی تھی اور پیدل واک کرتے ہوئے گھر کی جانب جا رہی تھی تو ایک لڑکی کو دیکھا۔ وہ ایک خاتون سے،جنہوں نے ایک بچے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔وہ یونیفارم میں تھا، کچھ کہہ رہی تھی اور وہ خاتون نفی میں سر ہلا رہی تھیں۔
میں نے اس لڑکی سے پوچھا ” بیٹا کیا مسئلہ ہے۔ تو وہ کہنے لگی!
”اصل میں ان سے میں کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنے ساتھ سکول لے چلیں۔ مجھے واش روم کی ضرورت
ہےمگر وہ کہہ رہی ہیں گارڈ اندر داخل نہیں ہونے دیں گے۔ آجکل کے حالات کے پیش نظر حفاظتی اقدام کے تحت یہ ضروری ہے۔
شاید ان کی بات درست تھی مگر میں یہ سوچنے پر مجبورہوگئی کہ آج کا انسان شاید اپنا اعتبار کھوچکا ہے۔
ہم یہ بھی پہچاننے کے قابل نہیں رہے کہ کون ضررورت مند اور کون دھوکے کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔
ایسے میں اگر کوئی کسی پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو ہم اس خوف سے اس کی مدد نہیں کرتے کہ شاید کہیں یہ کوئی دہشت گرد ہی نہ ہو یا پھر کوئی لٹیرا۔۔۔
اب شاید ہی کوئی کسی کو اپنے دروازے سے پانی پلا کر بھیجے۔۔
اب شاید ہی کوئی کسی کو ایک وقت کھانا نہیں کھلائے کہ کہیں وہ، وہ مستحق نہ ہو اور اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو اور وہ کسی بری نیت سے گھر مین داخل ہونا چاہتا ہو۔۔۔
آخر ہم کس طرف جارہے ہیں؟
کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ ہمارے یہ منفی معاشرتی رویے ہمیں کس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ہم میں خلوص، مروت، لحاظ، مدد کا جذبہ، نیکی کی خواہش، خدا کی رضامندی اور انسانیت کا مقام سبھی کچھ حاصل کرنے کی تمنا ختم ہوتی جارہی ہے۔ اب ہم صرف اپنے لیے جینے لگے ہیں۔اب ہم شاید خود ہی
سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں مگر ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ اگر کبھی ہم مشکل میں ہوئے اور پھر کسی ہم نفس انسان نے ہمارے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا تو ہمارے دل پر کیا گذرے گی۔
کیا تب ہم وہ درد محسوس کر سکیں گے جو کبھی کسی حاجت مند نے محسوس کیا ہوگا جس نے اشد ضرورت کے تحت کسی کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھا ہوگا۔کیا ہم کوئی ایسی چین نہیں بناسکتے جس میں ہماری کی گئی کسی ایک نیکی کے بدلےہمیں فورا” ہی کسی نیکی کا سامنا ہواور یہی جذبہ ایک فرد سے دوسرے فرد، ایک انسان سے دوسرے انسان تک گذرتے ہوئے اس پورے معاشرے کو ایک ایسے مثالی معاشرے میں بدل دے کہ جہاں کوئی انسان کبھی اپنے ہمنفس انسان سے مایوس نہ ہو۔اس کا دل نہ بجھے اسے یہی لگے کہ اب بھی کہیں دیئے کی لو ابھی مدھم نہیں ہوئی ہے۔
ابھی دلوں میں وہ روشنی باقی ہے جو ہمارے محبتوں کے رویوں کو وہ روشنی اور چمک عطا کر سکے جس سے مایوس انسانیت کاچہرہ جگمگا سکے۔مگر کہتے ہیں جب بھی کبھی اندھیرے بہت بڑھتے ہیں تو کہیں نہ کہیں سے ایک کرن ضرور اپنا راستہ بناتی ہے۔ میں یہ بھول گئی تھی کہ ہماری آج کی نسل بہت باشعور اور سمجھدار ہے۔ یہ دیکھ کر بہت اطمینان ہوا کہ اب بھی ان میں اخلاقی اقدار کی پاسداری اور احترام موجود ہے۔ ان کے روئیے ہمیں خوشی دیتے ہیں۔
اس دن سٹاپ پر دیکھا دو اسٹوڈنٹ لڑکے ایک بوڑھی خاتوں کو بس میں سوار کروا رہے تھے تھے کہ کنڈیکٹر نے کہا انہیں دوسری وین لینی ہوگی یہ بس نہیں جاتی جہاں انہوں نے جانا ہے۔ وہ بچے انہیں سڑک کراس کر کے مطلوبہ وین میں بٹھا نے چلے گئے۔ اس دن کتنی ہی طالبات نے ادھیڑ عمر خواتین کو سیٹ پیش کی اور خود کھڑے ہوکر سفر کیا۔ یہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں معاشرے کو خوبصورت بناتیں ہیں اور دوسروں کے لئے مثال بنتی ہیں۔ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اگر ہم اچھی باتیں اپنائیں گے تو تصویر خوبصورت نظر آئے گی اور اگر بری باتیں نمایاں ہوں تو معاشرہ بدنما نظر آئے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لائیں تاکہ ہمارا معاشرہ سنور سکے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں