یہ نہیں سدھرنے والے

جمعے کی نماز کے لیے نکلا، بیان ختم ہونے کے قریب تھا۔۔۔ اس لیے جلدی میں تھا۔۔ مسجد کے قریب حسب سابق پھلوں، سبزیوں ، ٹھنڈے مشروبات اور دیگر اشیا کے ٹھیلے لگ رہے تھے۔ شکرقندی والے کے قریب پہنچا تو سامنے سے ایک پچیس چھبیس برس کا نوجوان موٹربائیک پر تیزرفتاری سے آیا اور میرے سامنے بریک لگادیے۔۔۔ جیب میں ہاتھ ڈالا اور رسید نکال کر اس میں سے ایک پرچی پھاڑی اور شکرقندی بیچنے والے خان صاحب کو دینا چاہی۔۔ میں یہ سارا منظر مسجد کی طرف جاتے جاتے دیکھ رہا تھا کہ خان صاحب اس کی سنی ان سنی کرنا چاہ رہے ہیں یا بچوں کا رش ہونے کی وجہ سے اس نوجوان کی طرف توجہ نہ دے سکے۔۔ اتنی دیر میں، میں مسجد کے اندر پہنچ چکا تھا اور ساتھ ہی ساتھ معاملہ بھانپ چکا تھا کہ یہ سین کیا ہے۔۔

مسجد کی پہلی منزل پر پہنچ کر میں صفوں کی طرف جانے کے بجائے دیوار کی طرف آیا اور نیچے جھانک کر دیکھا تو وہ نوجوان اپنی موٹر بائیک ہوا ہوچکا تھا۔۔ میں نے اُسی وقت طے کرلیا کہ واپسی میں شکرقندی لینی ہے اور خان صاحب سے دریافت کرنا ہے کہ یہ سارا معاملہ کیا تھا؟

نماز پڑھ کر نیچے اترا اور نہ چاہتے ہوئے بھی شکرقندی لینے پہنچ گیا۔ کیوں کہ مسجد آنے سے کچھ دیر پہلے ہی ناشتہ کیا تھا اس لیے کچھ کھانے کو جی نہیں کررہا تھا پھر بھی دل میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب لینے خان صاحب کے پاس جا پہنچا۔۔۔ وہاں کچھ لوگ موجود تھے اس لیے دیگر ٹھیلوں کی طرف رخ کیا۔ ایک ٹھیلے سے درجن بھر کیلے خریدے اور واپس خان صاحب کے پاس آیا تو وہاں ایک ہی صاحب تھے جو قیمت اور شکرقندی کے معیار پر خان صاحب سے بحث کررہے تھے۔ اُن کا موقف تھا کہ شکرقندی اتنی مہنگی کیوں ہے اور خان صاحب بتارہے تھے کہ یہی ریٹ ہیں سب جگہ۔۔ اس پر خریدار انکل  نے جو لہجے اور حلیے سے مقامی لگ رہے تھے طعنہ مارا کہ “کیا یہ سارا پیسہ افغانستان لے کر جائے گا “

خریدار کی عمر پچاس باون ہوگی،، لیکن اُن کے جواب نے میرا غصہ اور بڑھادیا، میں پہلے ہی موٹربائیک کی حرکت پر بھرا بیٹھا تھا۔ انکل کو مخاطب کرکے کہا خان صاحب کی ساری کمائی تو بھتہ خوروں کی نظر ہوجاتی ہے، افغانستان کیا لے جائیں گے۔۔ ابھی ایک لڑکے نے انہیں پرچی دی اور مسجد کے قریب اپنا رزق تلاش کرنے کے جرم میں بھتہ لے گیا۔ میری بات سن کر خان صاحب حیران ہوئے اور وہ خریدار انکل سمجھے کہ میں مذاق کررہا ہوں، میں نے خان صاحب سے دریافت کیا کہ کتنے کی پرچی دے گیا تو انہوں نے بتایا کہ بیس روپے کی پرچی دی تھی، یہ صرف شکرقندی والے سے ہی پیسے نہیں بٹورے گئے تھے وہاں آگے پیچھے بیس بائیس ٹھیلے لگے تھے اور مجھے یقین ہے کہ وہ بدمعاش سب سے ہی بھتہ لے کرگیا ہوگا۔

انکل خریدار نے میری بات کی تصدیق چاہی کہ کیا واقعی ٹھیلے یہاں لگانے کے بیس روپے لیے گئے ہیں تو خان صاحب نے کہا کہ ہم کیا کرتا، روزی روٹی بھی چلانی ہے۔۔ اس پر خریدار انکل نے کہا کہ صرف بیس روپے کی پرچی؟؟ تو میں نے کہا کہ بیس روپے بھی کیوں؟ ہمیں کب شرم آئے گی، اس شہر میں کب تک لوگوں کی حق حلال کی کمائی لوٹی جاتی رہے گی۔۔ میری بات سن کر انکل جاتے ہوئے کہنے لگے کہ جب ہی یہ اتنی مہنگی شکر قندی بیچ رہا ہے تو میں نے انہیں جواب دیا کہ غریب بے چارہ کیا کرے؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ دھندا کچھ عرصے  کے لیے رکا تھا اب پھر چل نکلا ہے۔۔ پہلے ایم کیوایم لندن کے نام پر بھتہ لیا جاتا تھا اب غنڈے ایم کیوایم پاکستان کی چادر اوڑھ کر نکلتے ہیں۔۔۔ اوپر بیان کیا گیا واقعہ جس مقام پر پیش آیا اس کے بالکل سامنے یوسی چیئرمین کا دفتر ہے جہاں اکثر ضلع وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی صاحب آتے رہتے ہیں۔ اس دفتر کے سامنے پارک میں یوسی چیئرمین کے عملے نے قبضہ کررکھا ہے اور اپنی گاڑیاں وہیں پارک کرتے ہیں۔۔

ایم کیوایم لندن ہو یا پاکستان،، یہ سدھرنے والے نہیں، انہیں کراچی والوں کا مال، خون اور جیب راس آگئی ہے۔۔ اسی پر پلتے رہے ہیں اور اسی پر پلنا چاہتے ہیں۔ جب تک کراچی والے ہوش کے ناخن نہیں لیتے، یہ جونک کی طرح چپکے رہیں گے اور ہمارا خون چوستے رہیں گے۔ ہم نہ جاگے تو یہ بھی سدھرنے والے نہیں۔۔۔

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں