انقلاب اور عوامی حمایت!مگر کیسے؟

ہر دور میں انقلاب اور انقلابی تحریکوں کی کامیابی بہتر رویوں کا شاخسانہ ہے ، ہر مذہب ہر قوم اور نسل بہتر رویوں کی متلاشی ہوتی ہے ، تاریخ میں کہیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی مذہب قوم یا نسل نے غلط رویوں کی تبلیغ کی ہو ، ہر مذہب اور قوم کے مبلغین ، واعظین ، مصلحین ، علما ، مشائخ اور اکابرین نے اپنے پیروکاروں کو بہتر اور اچھے رویے اپنانے کا درس دیا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ایک عقیدے میں اپنانے والا رویہ کسی دوسرے عقیدے کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے ، کسی بھی معاشرے کے مذہب ، سیاست ، ثقافت ، معیشت اور تہذیب و تمدن کے اثرات اس معاشرے میں رہنے والوں پر نمایاں ہوتے ہیں اگر یوں کہا جائے کہ کسی بھی قوم کے رویے سے اس معاشرے کے مذہب ، سیاست ، معیشت اور تہذیب و تمدن کا اندازہ ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اگر ہم انبیائے کرام علیہم السلام اور دنیا بھر کے مذہبی پیشواﺅںکی زندگی کا جائزہ لیں تو لامحالہ ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ ان ہستیوں کے ظاہری لباس ، مال و دولت، شان و شوکت یا ان کے چہروں کے خدوخال سے متاثر ہوکر کسی نے ان کی دعوت قبول کی ہو یا ان کے لیے جان و مال کی قربانی دینے کو تیار ہوگئے ہوں ۔

 تاریخ جس چیز کا تذکرہ کرتی ہے جس ہتھیار سے انہوں نے اربوں کھربوں انسانوں کو متاثر کیا وہ ان ہستیوں کا بہتر رویہ تھا ۔ انہی بہتر اور خوش کن رویوں نے دنیا بھر میں مختلف انقلاب برپا کیے ۔ 14 سو سال قبل سرزمین عرب سے اٹھنے والے عظیم الشان اسلامی انقلاب کے پیچھے بھی ایسے ہی انمول رویے تھے جس سے سیرت محمدیﷺ اور سیرت صحابہؓ پر لکھی گئی کتابیں بھری پڑی ہیں ، یہاں ان کا تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ، اس سے مسلمان اور غیر مسلم سب اچھی طرح واقف ہیں ۔ بدقسمتی اس معاشرے کی یہ ہے کہ یہ سب معلوم ہونے کے باوجود معاشرے کے مبلغین ، واعظین، علما اور مشائخ بر سبیل تذکرہ تو ان رویوں کو گردانتے ہیں اور وہ قصے بھی سناتے رہتے ہیں جس میں ان ہستیوں کی رویے سے متاثر ہونے کے پر اثر واقعات موجود ہوتے ہیں ، مگر ان کا زور ظاہری لباس ، چہرے کے خدوخال اور شان وشوکت پر ہوتا ہے ، اسی طرح عبادات میں بھی ان کا زور ظاہری خشوع و خضوع پر ہوتا ہے حالانکہ عبادت تو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان راز و نیاز کا نام ہے اب بندہ اپنے رب کو کیسے راضی کرتا ہے اور رب کریم کو اپنے بندے کی کون سی ادا پسند آتی ہے اس کا علم تو بلا شرکت غیرے اسی ذات کو ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ حالانکہ سب کو یہ معلوم ہے کہ عبادات کے مقابلے میں معاملات پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ رویوں کا اصل تعلق معاملات سے ہے ، عبادت ذاتی ہے لیکن ہم نے معاملات کو ذاتی بناکر اس سے پہلو تہی اختیار کی ہے اور عبادت پر زور دیا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ معاشرتی رویے بڑی تیزی سے بگڑتے جارہے ہیں ، مسلمان جن کے رویے کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے وہ تیزی سے روبہ زوال ہیں اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اب دیگر مذاہب کے لوگ بہتر نظر آنے لگے ہیں اکثر لوگ امریکا، یورپ ، جاپان، چین اور دیگر ممالک میں رہنے والوں کے وعدوں کی پاسداری ، صداقت اور دھوکے بازی سے دور رہنے کو بطور مثال پیش کرتے ہیں ، جو کسی زمانے میں مسلمانوں کا وتیرہ تھا۔ گزشتہ دنوں ایک دانشور نے کہا کہ ” اسلامی انقلاب کا کوئی ضابطہ نہیں ، اس کے لیے عوامی حمایت کی ضرورت ہے“ ۔

 اب اگر دیکھا جائے تو انہوں نے خود ہی یہاں اپنی بات کی نفی کی ہے اگر خاص ضابطہ نہیں تو پھر عوامی حمایت کیوں ضروری ہے؟ اب اگر عوامی حمایت ضروری ہے تو عوامی حمایت حاصل کرنے کا بھی کو ئی ضابطہ ہے اس میں سب سے بڑھ کر کردار رویے کا ہے ،ہر قسم کے رشتوں اور تعلق کی مالا پرونے میں مرکزی کردار رویے کا ہوتا ہے ، یہی رویے ہی انسان کو متاثر کرتے ہیں اور کسی کا گرویدہ بناتے ہیں ، محبتیں اور نفرتیں دونوں رویوں سے ہی جنم لیتی ہیں۔ اس وقت دنیا مسائل ، مصائب اور مشکلات کا شکار ہے ہر طرف دہشت گردی ، افرا تفری اور بد امنی کا راج ہے ، دانشوران قوم ، سیاستدان ، اہل علم اوراہل قلم اس کی مختلف توجیہات پیش کررہے ہیں ، ان کی پیش کردہ توجیہات بھی درست ہیں اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن عمیق انداز سے ان تمام مسائل کا مطالعہ کیا جائے تو خود ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس دنیا سے بہتر اور خوش کن رویے ختم ہوتے جارہے ہیں اور اس کی جگہ ناکارہ رویے پنپ رہے ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ انسان انسان کا دشمن بنتا جارہا ہے ۔ مذاہب جو کسی زمانے میں مذہبی ہم آہنگی اور برداشت کا رویہ اپناتے تھے اور دلیل سے بات کرنے کو ترجیح دیتے تھے آج ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں ۔

 ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے اہل علم اپنے اپنے دائرے میں اپنے لوگوں کو بہتر اور اچھے رویے اپنانے کا درس دیں اور ان کی تربیت کریں اور خود کو بطور مثال پیش کریں ۔ ایک بد قسمتی ہماری یہ بھی ہے کہ فی زمانہ ہم بطور نمونہ کسی فرد کی مثال بھی تو پیش نہیں کرسکتے ، مذہبی پیشواﺅں میں بھی وہ لوگ در آئے ہیں جن کے کردار پر اسی مذہب کے لوگ انگلیاں اٹھا رہے ہیں ، حال ہی میں بھارت میں گرفتار ہونے والے2 مذہبی پیشوا اس کی واضح مثال  ہیں۔ کسی ایک مذہب کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ، افراد کے ساتھ ساتھ انقلابی تحریکوں کو بھی اپنے معاملات اور رویوں پر توجہ دینی ہوگی اور ان تحریکوں سے وابستہ افراد کی عملی تربیت کا جامع نظام مرتب کرنا ہوگا اور اپنے معاملات کو درست کرنا ہوگا ، کیونکہ آنے والا وقت رویوں کے ذریعے ہی انقلاب لانے کا ہے ، ہتھیاروں کے ذریعے انقلاب لانا اب ایک خواب بن چکا ہے ، اسلحہ اب اتنا عام ہوچکا ہے کہ دنیا کا بچہ بچہ ہتھیار سے کھیل رہا ہے اور مختلف ممالک میں بڑے ہتھیاروں کے استعمال نے بھی اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ اسلحے کے ذریعے انقلاب کبھی نہیں لایا جاسکتا ۔ اس ڈر اور خوف سے نکلنا ہوگا کہ کوئی سپر پاور اٹھ کر دنیا میں انقلاب برپا کر دے گا یہ دور تلک ممکن نظر نہیں آرہا ۔ میڈیا کے ذریعے بھی انقلاب کا کوئی علم بلند ہونے کو نظر نہیں آرہا اب اگر کوئی انقلاب آسکتا ہے تو وہ مثبت ، بہتر اور محبت و شفقت بھرے رویے ہی برپا کرسکتے ہیں ، جو بھی اس میدان میں آگے بڑھے گا وہی انقلاب کی دہلیز کو چھو لے گا، جس مذہب جس قوم یا جس تحریک نے اس جانب توجہ دی اور بہتر رویوں کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا تو بعید نہیں کہ عوامی حمایت اس کو حاصل ہو اور وہ انقلاب برپا کرلے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں