چوکنڈی قبرستان

چوکنڈی قبرستان کی قبریں جو کھیو قبائل سے منسوب کی جاتی ہیں لیکن اس کے علاوہ دیگر بلوچ قبائل کی قبریں بھی ہیں ۔چوکنڈی قبرستان میں موجود تاریخی قبروں کی تعمیر 15ویں صدی عیسوی تک ہوتی رہی ہیں ۔چوکنڈی کے معنی چار کونوں کے ہیں اور یہ نام بھی شاید اسی لئے استعمال کئے گئے ہیں ،قبروں کی تعمیر میں پیلے رنگ کے پتھر استعمال کیا گیا ہے جو ٹھٹہ کے قریب جنگ شاہی میں پایا جاتا ہے سب سے خوبصورت مقابر کثیر منزلہ یا تو اتر منزلہ ڈیزائن میں بنے ہوئے ہیں ۔یہ مستطیل نما قبریں تقریبا اڑھائی فٹ چوڑی ،پانچ فٹ تک لمبی اور چار سے چودہ فٹ تک بلند ہیں اس میں قبر کے چاروں طرف استعمال کئے گئے پتھر پہ انتہائی

خوبصورت نقش نگاری کی گئی ہے ۔مردوں کی قبروں پر خوبصورت کلاہ نما ڈیزائن بنائے گئے ہیں اور اس کے علاوہ تلوار بازی ، گھڑسواری اور تلوار ،خنجر و غیرہ کے نقش پائے جاتے ہیں جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں ان نقش سے مرد و زن کی قبروں کی با آسانی شناخت کی جاسکتی ہے ، دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہیکہ جب سائینٹیفک آلات بھی موجود نہیں تھے اس وقت میں کئی تہوں پر مشتمل یہ ڈیزائن کیسے کریدے گئے ہونگے ، اور یہ ڈیزائن اس مہارت سے کریدے گئے ہے کہ قبروں کے دیگر لیئرز کو کوئی بھی نقصان نہیں ہوا ہے ایک اندازے کے مطابق جس نفاست سے ان قبروں پر نوادرات کنندہ کئے گئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قبر پر کئی ماہر کاریگروں کے کئے دن یا کئی مہینے صرف ہوئے ہونگے


اس قسم کی قبریں چو کنڈی کے علاوہ ملیر ، میر پور ساکرو ، مکلی ، ٹھٹہ ،سہون شریف وغیرہ میں بھی پائی جاتی ہیں
ان تمام تر حقائق کے بر عکس انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت وقت کی طرف سے اس خوبصورت ورثے کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ جو چیز مزید افسوس کا باعث بنی وہ یہ کہ پچھلی حکومتوں میں اس قبرستان کی اراضی اور اس سے ملحلقہ اراضی کچھ لوگوں کو کارخانوں و دیگر مقاصد کے لئے دیا جاتا رہا ہے، جس پر فوری کارخانوں کی تعمیرات بھی ہو چکی ہیں ، قبرستان کی دیوار کے ساتھ ہی سے کارخانوں ،گاڑیوں کے گیراج ، مکینک کی دوکانوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے اور ایک بات قبرستان سے متصل جگہ پر ٹینکر مافیا بھی برجمع ہے ،مین روڈ سے گزرتے ہوئے شاید ہی کسی فرد کو یہ احساس ہو کہ ایک قدیم اور نایاب ورثہ یہاں موجود ہے ،مین روڈ پر ایک چھوٹا سابورڈ اس قبرستان کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے جبکہ اس چھوٹے سے بورڈ پر بھی تشہیری پوسٹر کی بہرمار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بورڈ قبرستان کی نشاندہی کے بجائے جلسے

جلوسوں اور کاروبار کی پبلسٹی کے لئے آویزں کیا گیا ہے ،قبرستان میں ہماری ایک ضعیف العمر شخص سے ملاقات ہوئی جن کے توسس سے ہمیں یہ معلومات ملی ملاقات میں ہمیں پتا چلا کہ یہ بزرگ گورنمنٹ کی طرف سے یہاں تعنیات ہیں جو کہ سوالیہ نشان ہے اتنے بڑے رقبہ پر محیط قدیم ورثہ کے لئے ایک فرد معمور ہے اور سونے پر سہاگا ضعیف العمر جبکہ یہ قبرستان دور حاضر کی ضرورتیں بھی بحیثیت قبرستان پوری کر رہا ہے یعنی یہاں اب بھی تدفین کا عمل جاری ہے ، اعلی حکام کو اس قدیم ورثے کو محفوظ رکھنے کے لئے فوری خاطر خواہ اقدام کرنے ہونگے تاکہ اس نایاب جگہ کو ہماری آنے والی نسلوں کو بھی معلومات حاصل ہو سکے

حصہ
نعمان لودھی مختلف سماجی ویب سائٹس اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں،ایک رفاعی اور فلاحی تنظیم سے وابستہ ہیں۔فوٹو گرافی کا جنون کی حد تک شوق ہے۔پروفیشنل فوٹو گرافر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں