پاکستان کو مْہذب بنانے میں جامعات کاکردار۔۔رابعہ مسعود علوی  

درس و تدریس کی اہمیت اسلام میں اپنی تمام تررعنائیوں اور گھیرائیوں کے ساتھ موجودہے۔ تاہم خوداللہ تعالی نے وحی کے سلسلے کا آغاز لفظ’’اقرا‘‘ یعنی پڑھ سے کیا۔ قرآن مجید جس میں معاشی ، معاشرتی اور سیاسی معاملات غرض کہ زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔دین اسلام میں تعلیم کی اہمیت ماں کی قبر سے لیکرلحد تک نیز چین جانے کی تاکیدہو یا بات مسلم مرد و عورت پر فرضیت کی ،اس بات کی کھلی وضاحت ہے کہ تعلیم ہی کے ذریعے انسان اپنی زندگی کو خوب تر اور مثبت انداز میں گزار سکتا ہے۔اسکول،کالج اور یونیورسٹی درحقیقت انسانی شعور بیدار کرنے کی مختلف منزلیں ہیں جسے ا نسان اپنی عمر و عقل کے ملاپ سے طے کرتا جاتا ہے، معاشرے کی اصلاح اور حل کے لیے ادبی سرگرمیوں کاہی لیا جاتا ہے اور انہی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر دور میں ٹیکنالوجی میں جدت کا سہرا تعلیمی اداروں کو جاتا ہے اس میں کوئی دو رائے یا کسی قسم کے شک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،جو قومیں تعلیمی قدروں کی اہمیت سے واقف ہوا کرتی ہیں خوشحال اور مہذب معاشرے انہی کا مقدر ہوا کرتے ہیں کیونکہ یہ قومیں اس راز سے واقف ہوا کرتی ہیں، معاشرے کے مسائل اور انکے حل کے لیے یونیورسٹیوں تک رسائی ضروری ہے، اس عمل کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے دنیا کی اُبھرتی ہوئی قومیں اپنے سالانہ بجٹ کا ایک بھاری حصہ تعلیم و صحت پر خرچ کر کے عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوں،اپنا آج اور آنے والا کل نکھارلیتی ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان اس معاملے میں زرا پیچھے ہے اور اس کے باوجود پاکستان کی جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات نے اپنا لوہا دنیا کے کونے کونے میں منوایا ہے،بقول سر سید احمد ایک الگ وطن کے حصول اور پھر آگے بڑھنے کے لیے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے، خود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی ایک نامور یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی اورشاید یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کی ضرورت سے وہ با خوبی واقف تھے،آج ملک ایک عجب دوراہے پرکھڑا ہے، حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ ا پنی تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے اور اپنی یونیورسٹیوں کو بہتر بنانے میں جت جائے تا کے ملک ترقی کے نئے سفر پر گامزن ہوسکے مگر افسوس اور دکھ کی انتھاہے کہ اب ایک منفی سوچ یونیورسٹیوں کے لیے لینا شروع ھو گئی،.اس منفی سوچ نے ان یونیورسٹیوں کے ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کیا بلکہ درس گاہوں کے مستقبل کے ساتھ بھی نہایت بیہودا کھلواڑ کیا ،نیز طلبہ اور والدین کو خوفزدہ کیا ہواہے کہ نجانے کب سے دہشت گردی کا ناسور اس گود میں پل رہاہے،حالانکہ درس گاہ کی اہمیت سے کوئی انکاری نہیں اور درحقیقت یہ مٹھی بھر انتھا پسند ان اداروں کا ایک فیصد حصہ ہوتے ہیں،یونیورسٹیاں چونکہ اس معاشرے کا حصہ ہیں اس لیے معاشرے میں چند شیطانی صفت درندے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے درس گاہوں کا سہارالے کر اپنی جہالت ذدہ سوچ کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں جس طرح مولوی کا بیٹا چوری کرتا پکڑا جائے تو اس فعل کے لیے اس کے شریف باپ کو قصور وار ٹھہرانا سراسر ازیادتی ہوگی اسی طرح چند لوگوں کے کالے کرتوت یونیورسٹیوں کی اہمیت اور ضرورت کو پامال نہیں کرسکتے دہشت گرد اپنا ٹھکانے ہر جگہ بناسکتے ہیں اور یہ انسانیت کے کھلے دشمن ہیں اگر یہ اپنے ارادوں کے لیے مسجدوں کا رخ کریں تو اسکا مطلب ہم مسجدوں سے دوری اختیار کرلیں؟؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس گندے پودے کو جڑ سے مٹایا جائے ،قانون نافذکرنے والے ادارے بجائے مدارس اور تعلیمی اداروں پر تنقید کے گولے برسائیں، ان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو قوم کے سامنے لائیں اور انکو سرے عام ایسی عبرت ناک سزائیں دی جائیں کہ دیکھنے والے کا رواں رواں کانپ اٹھے،ان اداروں کا حصہ بننے سے پہلے بھی انسان کی ایک آزادزندگی ہوا کرتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ان میں دہشت گردی کا عنصر اس وقت پروان چڑھا ہو جب وہ ان اداروں کا حصہ ہی نہ ہوں؟؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان اداروں کو انکی مقدس حرمت کی وجہ سے جان بوجھ کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ ان میں داخلہ لیا جاتا ہو؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے کتنے حربے آزمائے جارہے ہیں اس وقت دنیا میں مسلمان وہ واحد قوم ہے جو نشانے پر ہے کشمیر،فلسطین ،افغانستان،شام،بوسینیا اور برما میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے۔
ہیں کہ لکھنے بیٹھا جائے تو قلم شاید لکھنے کی طاقت ہی کھو دے، کیا ممکن نہیں کہ کوئی بیرونی طاقت اسی ملک کے نازک پھولوں کو اس ملک کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہو؟۔آج جبکہ سوشل میڈیا نے ملکوں کے مابین دوریاں تقریبا ختم کردی ہیں،اب تواور بھی آسانی ہوگئی ہے واقفیت بڑھانے میں۔۔ دہشت گردوں کے حملوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ پے ردپے قانون نافذ کرنے والے اداروں ،ہوائی اور بس اڈے غرض عید جیسے تہواروں بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں،ان ناسوروں کا خاتمہ کیا جانا چاہیے تا کہ ایک صاف ستھرا معاشرہ ایک صاف ستھرے نظام کو جنم دے سکے اور یہ تعلیمی ادارے معاشرے میں چھپے ہوئے گوہر نایاب کو تراشتے رہیں اور پھر ملک کے ذہین و فطین طلبہ و طالبات اپنی جامعات سے علم کا زیور لیکر کر دنیا میں پاکستان کا پرچم بلند کریں، اگر ان سے ڈر کر درس گاہوں کا خاتمہ (خدانخواستہ) کر بھی دیا جائے تو یہ کسی اور روپ میں کسی اور کا سہارا بھی لے سکتے ہیں،آج ملک کے حالات کیسے بھی ہیں مگر پاکستان دنیا کے نقشے پر آج بھی اپنی آن بان اور شان سے چمکتا اور دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ضرور ہے،نوجوان ہی اس ملک کا اثاثہ ہیں اور پاکستان کی ترقی میں طلباء کردارہے،ایک تہذیب یافتہ معاشرے کا قیام صرف تب ہی ممکن ہوگا جب وہاں کے لوگوں میں علم و شعور ہوگا سو بہتر ہے کہ تعلیمی اداروں اور جامعات جو کہ انسان کو اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو منوانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں انکو شک کی آنکھ کے بجائے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے ورنہ دنیا کہہ سکتی ہے کہ
؂ حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

حصہ

جواب چھوڑ دیں