ماہرہ۔۔۔! تمہارے سوٹے ہمارے لیے برابلم نہیں

ہماری قوم نے عجب کلچر پروموٹ کرنے شروع کر دیے یہاں میرا، متیرا، ماہرہ کے سوٹے سے ایک دم خواتین کے حقوق کی مثالیں دی جانے لگتی ہیں تسبیح اور صوم و صلوۃ کی پابند قوم سوشل میڈیا کی ان خبروں پر ہیجان میں مبتلا ہو کر چیخنا شروع کر دیتی ہے ، دھڑا دھڑ خواتین کے دفاع میں یا مخالفت میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگتی ہے

یہ تو ہائی پیڈ ایکٹرس ہیں پبلسٹی کے لیے بکنی بھی پہن کر سوٹے لگائیں یا منی سکرٹ پہن کر، کیا فرق پڑتا ہے؟
کیا اتنا درد سی کلاس ایکٹرس، ولن، یا ایکسٹراز کے لیے جاگا؟ نہیں… تو کیوں؟ کیا وہ انسان نہیں؟ کیا ان کے گھر چولھے نہیں جلتے؟
ہمارے کئی زکی، بن بتوڑیاں، ببو برال اور کئی قیصر محمود ہماری بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے ایم ایس سی سائکالوجسٹ روحی بانو جیسی شہزادیاں معاشرے کی سفاکی کی نذر ہو کر پاگل خانے کی مکین بن گئیں

ستم ظریفی دیکھیے کہ ان کا پتہ چلے بھی تو ہم نہیں لکھتے، ہم صرف اے کلاس ایکٹر کو مچھر بھی لڑ جائے تو اپنی دیوانگی دکھاتے ہیں

خواتین کے حقوق سے متعلق سارے راگ الاپنے لگتے ہیں لیکن ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ ایکٹرس ہیں اپنے آپ کو منوانے کے لیے کئی پبلسٹی سٹنٹ کھیلنا انکے لئے ضروری ہے یہ ان کے میڈیا میں رہنے کے ہتھکنڈے ہیں سمندر کنارے بکنی میں کیسے پوز دینا ہے؟ وائین کے گلاس سے ٹن ہونے تک کس کے گلے کا ہار بننا ہے؟ کیسے لہرانا ہے؟ یہ شوبز کے وہ خفیہ گُر ہیں جو اس فیلڈ میں قدم رکھنے والیوں کے لیے سیکھنا ازحد ضروری ہے کیونکہ یہ ان کی اس فیلڈ میں بقا کی جنگ ہے اور جنگ میں تو صاحب! سب جائز کا فارمولا چلتا ہے

یہ تو ایکٹرس ہیں یہ روتی ہیں تو ن کے ساتھ ہم بھی اسی عمل کو دھراتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ بحثیت قوم ہمارے یہی مسائل رہ گئے ہیں؟
مجھے اپنی قوم کو فقط یہ کہنا ہے کہ یہ سرعام سوٹے لگائے یا مے نوشی کرتے ہوئے سربازار دھت آجائے اک عام آدمی کو اس سے کوئی ایشو نہیں

اصل میں یہ ویلے لوگوں کے چونچلے ہیں جنھیں بریڈ اینڈ بٹر کا پرابلم نہیں ایک عام آدمی کی زندگی کے حقیقی رجحان اور ہیں… اس کی زمینی حقائق اور مسائل اور ہیں

اک عام آدمی سو روپے کی سبزی لاتا ہے تو سوچتا ہے کہ اس میں کتنا پانی ڈالے کہ دو ٹائم کی روٹی لگ جائے.. یہ ہے اک عام آدمی کی فکر

سکول کی فیس جو اگلے ماہ بڑھ رہی ہے اسے اپنی کون سی خواہش مار کر، بجٹ میں کٹوتی کر کے کسطرح پورا کرنا ہے یہ ہے عام آدمی کی سوچ

جوان بیٹی کو رخصت کیا تو دوسری کا جہیز کیسے بنائیں؟ اگلے جلدی کر رہے ہیں، رشتہ کہیں ہاتھ سے نہ چلا جائے، یہ ہے اک عام آدمی کی الجھن

سرکاری ریٹائرڈ کا معمولی پنشن میں گزارا، اور پنشن کی لمبی لائن سوا نیزے کے سورج تلےاس کی بوڑھی ناتواں ہڈیوں میں کیسے دراڑ ڈالتی ہے یہ ہے عام آدمی کی بے بسی

بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوشی اک مزدور باپ کو رات بھر سونے نہیں دیتی یہ ہے اصل بیماری

حکمران اعدادوشمار کے زریعے معاشی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں اور بے روزگاری سے بے حال قیمتی جوان موت کی آغوش میں جا سوتے ہیں یہ ہیں ہمارے المیے

روڈ ٹرینوں پر خرچ کرتے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں عوام ایڑیاں رگرتی ہیں یہ ہے ہماری بے بسی

آئی ایم ایف کے مستقل بھکاری ہیں مگر شرم ہم کو مگر نہیں آتی… غالب بھی شاید بھانپ گیا تھا تبھی یہ کہہ گیا ہمیں

ہم سماجی طور پر اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمارے موضوع گفتگو ایکٹر کے سوٹے، اس کی کمر کے خم سے شروع ہو کر بدن کے تل گننے میں ختم ہوتے ہیں مگر مقام افسوس کہ ہم بحیثیت قوم اپنی ترجیحات، مسائل کا ادراک نہ کر پائے

اگر ہم نے یہ روش ترک نہ کی تو عین ممکن ہے کہ پھر کوئی تاتاری اٹھے اور بحث و مباحثہ میں الجھی قوم کی طرح ہمیں بھی نیست و نابود کر دے
بات تو صرف احساس کی  ہے

 

حصہ
سائرہ فاروق ایم ایس سی کی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں