ٹائم پاس کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان

              ایف ایم ریڈیو پر ایک پروگرام میں ٹاپک دیا گیا تھاٹائم پاس اور اس پر لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ ٹائم پاس کیا ہے؟

              تب میرے ذہن میں اس سوال کے جواب کو ڈھونڈنے کا خیال آیا اور میں نے اپنے ارد گرد پر نظر دوڑانی شروع کر دی۔ ویسے تو انسان کو ہر وقت اپنے اطراف کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے تاکہ حالات حاضرہ سے باخبر رہا جا سکے مگر آج کے دور کے انسان کا المیہ یہ رہا ہے کہ ہر انسان نامعلوم جلدی کا شکار نظر آتا ہے۔ دفاتر میں جانے کی جلدی، وہاں سے واپسی کی جلدی، غرض ہر شعبہ زندگی کو جلدی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر اسکے باوجود انسان ایک ہی رونا روتا نظر آتا ہے۔ اور وہ ہے وقت کی کمی کا رونا۔ خیر بات ہو رہی تھی ٹائم پاس کی۔ اس افراتفری اور جلدی میں بھی لوگ ٹائم پاس کو ایک ایکٹیوٹی کے طور پر اپنے روزمرہ کے کاموں میں شامل رکھتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ٹائم پاس دراصل ہے کیا؟ ٹائم پاس کے مطلب کو ہم اصطلاحی زبان میں وقت گزاری کہہ سکتے ہیں۔ اور یہ وقت گزاری ہم مختلف طریقوں سے اپلائی کرتے ہیں۔ بعض لوگ ٹائم پاس کے لیے ٹی وی دیکھتے ہیں ۔ کچھ کمپیوٹر پر گھنٹوں کے حساب سے وقت گزارتے ہیں اور آجکل ٹیکنالوجی نے وقت گزاری کو اور بھی آسان کر دیا ہے۔موبائل جیسی عام اور ہر کسی کی پہنچ میں رہنے والی چیز نے تو وقت گزاری کے وہ طریقے لوگوں میں متعارف کروئے ہیں کہ الامان الحفیظ،

              ہمارے معاشرے کا ہر فرد، بچہ بوڑھا اور نوجوان ، مرد اور عورت موبائل جیسی کار آمد چیز کو وقت گزاری کا ذریعہ بنانے میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔ بظاہر ہمارے پاس وقت کی بے انتہا کمی ہے مگر وقت گزاری اور دل پشوری کرنے کے لیے لوگ پوری پوری رات صرف کر دیتے ہیں۔ یا تو فیس بک استعمال کرتے نظر آتے ہیں یا پھر انٹرنیٹ پر سرفنگ اور سرچنگ کے علاوہ نت نئی اور نئی نویلی محبتوں میں مبتلا ہونا بھی وقت گزاری کا ایک بہترین مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔ بوڑھے والدین کے پاس بیٹھنے کے لیے تو نوجوانوں اور جوانوں کے پاس فرصت ہی نہیں ہوتی مگر وقت گزاری کے لیے وقت پیسہ اور اپنے قیمتی جذبوں کو بے مول کرنے میں ہم لوگوں کو ذرا بھی کوئی عار یا مشکل پیش نہیں آتی۔

              اس وقت گزاری کے عفریت نے دلوں سے سکون اور چین کو تو ختم کیا ہی ہے مگر اسکی بدولت ہمیں ہمارے دین سے بھی دوری نصیب ہوئی ہے ۔ شچی محبتوں اور جائز رشتوں کا تقدس سب وقت گزاری کی نظر ہو کر رہ گیا ہے۔ ذہنی انتشار اور بے سکونی کا رونا ہر انسان روتا نظر آتا ہے مگر اسکے پیچھے کو وجوہات پر کسی کو غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔اگر ہم لوگ سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا شروع کر دیں تو شاید یہ وقت گزاری کا مرض ختم نہیں تو کم ضرور ہو سکتا ہے۔ وقت گزاریکے لیے اگر ہم مثبت سوچ اور انداز فکر کو اپنائیں تو وقت کی کمی اور گناہ بے لذت دونوں سے بچا جا سکتا ہے۔ گزرے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہو کر ایک دوسرے کی قربت میں رہ کر خوش رہتے تھے مگر آج کا انسان اپنی ذات میں اکیلا اور تنہا رہ گیا ہے۔ وجہ ہر کسی کی وقت گزاری کی اور فضول قسم کی تفریحات ٹھہرتی ہیں اور ہر بات کو سطحی انداز میں لینا بھی ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔ اپنے ذات کو فوقیت دینا اور دوسرے کو کمتر سمجھنا یہ سب وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ وقت گزاری ضرور کریں مگر خدارا وقت کا زیاں نہ کریں کیونکہ آخر کو وقت کا کام گزرنا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ ہم گزر جائیں گے ٹائم پاس کرتے کرتے مگر دراصل وقت آپکو پاس کرتے ہوئے گزر جائے گا۔ اس لیے وقت کی قدر کرنا سیکھیں۔

حصہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش پذیر نبیلہ خان مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتی ہیں۔ nabilakhan2323@gmail.com

جواب چھوڑ دیں