لکھنے کے اعضا۔

اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ لکھنے میں کون کون سے اعضا استعمال ہوتے ہیں؟ تو آپ ’کوئی‘ کو پاگل سمجھیں گے۔

عام خیال یہی ہے کہ  لکھنے میں صرف ایک ہاتھ اور آنکھیں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ خیال درست ہے، لیکن نامکمل ہے۔

لکھنے میں کون سے اعضا استعمال ہوتے ہیں، انحصار اس بات پر ہے کہ لکھنے والا کون ہے بلکہ کیا ہے؟ اگر لکھنے والا چار جماعت فیل ہے تو لکھنے میں (کچھ بھی لکھے، خواہ دستخط کرے) اس کے یہ اعضا استعمال ہو  سکتے ہیں: ایک ہاتھ کی چاروں انگلیاں، انگوٹھا (قلم کو زور سے پکڑنے کے لیے)اور ہتھیلی(کاغذ پر ٹکی ہوئی)، دوسرے  ہاتھ کی چاروں انگلیاں (کاغذ کو میز پر دبانے کے لیے پھیلی ہوئی)، کہنی (میز کو دبا کر رکھنے کے لیے)، ماتھا (شکن ڈالنے کے لیے)، دونوں ابرو (چڑھانے کے لیے)، زبان (ہونٹوں سے ذرا سی باہر کو نکلی ہوئی)، گردن (فرماں برداری سے کاغذ کی طرف جھکی ہوئی)، آنکھیں (کاغذ پر)۔تحریر کے بعد، یا دستخط کی تقریب کے بعد یہ اشیا اپنے معمول پر آ جاتی ہیں۔

اس کے برخلاف ، لکھنے والا  عادی ہے، یعنی ادیب، صحافی یا لکھاری ہے تو اس کے کم سے کم اعضا استعمال ہوں گے، مثلاً دو انگلیوں اور انگوٹھے میں تھاما ہوا قلم اور آنکھیں۔ زیادہ سے زیادہ کہنی میز پر ٹکی ہوئی۔ دوسرا ہاتھ سر کھجانے یا سگریٹ نوشی کے لیے وقف ہوگا۔ زبان باتوں میں مصروف یا خاموش ہوگی (کم از کم ہونٹوں سے جھانک نہیں رہی ہوگی)۔

یہ دو مختلف مناظر دراصل دو ذہنی کیفیتوں کا اظہار ہیں۔ اول الذکر علم سے نابلد ہے، اسے اپنی کم علمی کا احساس بھی ہے، کم مائیگی کا یہ احساس اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کمی کو پورا کرنے کو ممکنہ حد تک زور لگائے چنانچہ زور لگانے میں اس کے بہت سے اعضا لکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں  اور وہ ہمہ تن قلم بن جاتا ہے۔جیسا کہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا شخص کبھی کبھار ہی قلم اٹھاتا ہے، چنانچہ لاشعوری طور پر وہ اس قیمتی شے کو جکڑ لینا چاہتا ہے۔ اُس کے نزدیک لکھنا (خواہ دستخط ہی ہوں)بے حد اہم اور لائقِ توجہ کام ہے جسے انجام دینے کے لیے اسے گردوپیش سے بلکہ اپنے آپ سے بھی بے گانہ ہو جانا چاہیے۔

مؤخر الذکر چونکہ لکھنے کا عادی ہے، قلم اس کا دن رات کا ساتھی ہے، یہ مشق اس کے لیے اتنی اہمیت نہیں رکھتی۔ وہ ارد گرد موجود لوگوں سے بات چیت بھی کرتا جاتا ہے۔ابنِ انشا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لکھنے کے دوران دوستوں سے باتیں بھی کرتے جاتے تھے، چائے بھی چلتی رہتی تھی، ہنسنا ہنسانا بھی جاری رہتا تھا، قلم بھی چلتا جاتا تھا، لکھنے کے بعد شاذونادر ہی دوبارہ دیکھتے تھے۔ اُن کے اس طرح لکھے گئے بیشتر کالم ’خمارِ گندم‘ میں اور سفر نامے دیگر کتابوں میں ہیں۔ پڑھتے جائیے اور مسکراتے جائیے۔

حصہ
تحریر و تصنیف کے شعبے میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عامل صحافی تھے، فی الحال مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ایم اے ابلاغ عامہ اردو کالج کراچی سے ۱۹۹۸ء میں کرنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی، جس کا تعلیم پر کوئی برا اثر نہیں پڑا، البتہ نئی نسلوں کو عبرت ملی کہ تعلیم چھوڑ دینے کا کیا نقصان ہوا کرتا ہے۔ اردو اور انگریزی فکشن سے دلچسپی ہے، اردو میں طنز و مزاح سے۔

جواب چھوڑ دیں