آپ کا مسئلہ کیا ہے۔۔؟محمد اعظم

ملازمت کے شروع دنوں کی بات ہے جب دفتر میں کام کرنے والوں سے زیادہ جان پہچان نہیں ہوئی تھی بس سلام دعا تھی‘ گہری دوستیاں نہیں ہوئی تھیں۔ ایسے میں ایک دن نئے دفتری ساتھیوں کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے گیا۔ واپسی پر ایک ساتھی کے ساتھ مکالمہ ہوا:-

دوست :آپ ایک وقت پر تین طلاقوں کے قائل ہیں؟
میں: جی نہیں۔
دوست: لیکن آپ نے تو نماز میں رفع یدین نہیں کیا۔
میں: جناب! رفع یدین کا طلاق سے کیا تعلق؟
دوست: میرا مطلب اہل حدیث مکتبہ فکر کے لوگ ہی ایک وقت پر تین طلاقوں کے قائل نہیں ہیں۔ تو سوچا شاید آپ بھی۔۔۔۔۔۔
میں: پیارے بھائی! ہر مسئلے کو قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کیا جانا چاہئے ۔ سو میں وہی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایسے میں اگر ایک مسئلے کا حل کسی ایک مکتبہ فکر سے ملتا ہے تو کیا یہ لازم ہے کہ کسی دوسرے مسئلے کا حل بھی اسی مکتبہ فکر کی سوچ کے مطابق نکلے؟
دوست: جب آپ ایک مسلک کے پیرو کار ہیں تو پھر تمام مسائل اسی مسلک کے دائرہ کار میں حل کرنے چاہئیں۔
میں: ایسا کرنا البتہ جائز مگر لازمی طور پر کرنا بالکل ضروری نہیں سمجھتا۔
دوست: مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے۔
میں: بہت سوں کو نہیں آئی سو آپ بھی سہی۔۔۔۔۔۔!
گو اس ایک مکالمے کی نظیر دے رہا ہوں مگر اس طرح کے مکالمے ہر دوسرے تیسرے دن ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی دوستوں کے ساتھ تو کبھی اہل خانہ کے ساتھ۔ ہر مکالمے کا اختتام اسی سوالیہ جملے سے ہوتا کہ ” آپ کا مسئلہ کیا ہے؟”۔ یقین جانئے میں بار ہا کوششوں کے باوجود اس سوال کا جواب آج کے دن تک تلاش نہیں کر سکا کہ آخر میرا مسئلہ کیا ہے؟۔
ہاں مگر اتنی بات ضرور سمجھ میں آئی ہے کہ یہ صرف مجھ اکیلے کا مسئلہ نہیں‘ میرے جیسے کئی دوسرے لوگوں کا مسئلہ بھی یہی ہے اور اس مسئلے کی جڑ عقیدت کے مینار سے اتر کر اور نفرت کی پٹی اتار کر سوچنا ہی نظر آتا ہے۔
دہائیوں سے روایتی دائرے میں رہ کر دی جانے والی مذہبی تعلیم نے ہماری سوچوں کو محدود کر دیا ہے۔ مذہبی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے آنے والوں کی سوچ کا دائرہ پہلے دن سے ہی طے کر دیا جاتا ہے۔ برسوں کی تعلیم کے بعد ان کا ذہن دوسرے مسلک کی بات کو ٹھیک ماننا تو در کنار سننے پر بھی آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ حال کم و بیش مذہبی تعلیم دینے والے تمام اداروں کا ہے۔ اپنے اپنے اکابرین کی تحقیق ہی ان کے نزدیک دنیا کی آخری سچائی بن جاتی ہے۔ یہ تو صورت حال ہے باقاعدہ طالب علموں کی جبکہ مکاتب فکر سے وابستگی رکھنے والے عام لوگوں کا حال بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ اس ساری صورت حال میں پہلے دن سے لگائے گئے دائرے سے باہر نکل کر سوچنا معیوب بن کر رہ جاتا ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ جن شخصیات کے نام پر مکاتب فکر وجود میں آ گئے انہوں نے آپس کے اختلافات کو کبھی بھی گروہ بندی کی وجہ نہیں بننے دیا۔ تمام آئمہ ایک دوسرے کے استاد و شاگرد تھے۔ دوسری اہم بات کہ بہت سے جید آئمہ و علماء ایسے بھی گزرے ہیں جن کی تحقیق مدون شکل میں آج ہمیں دستیاب نہیں ‘ان کا علمی قد کاٹھ کسی طور پر دوسروں سے کم نہیں تھامگر جن آئمہ کی تصانیف و تحقیق ہمیں دستیاب ہوئی ان کی بنیاد پر مکاتب فکر وجود میں آ گئے۔ بات یہاں تک رہتی تو پھر بھی کسی حد تک گزارہ ممکن تھا لیکن ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا نتیجہ آج ہم فرقہ واریت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
ابتدائی طور پر صرف ایک چیز کو ذہن میں رکھ کر سوچنے کی گنجائش پیدا کر لی جائے تو تسلی ہو سکتی ہے کہ جب کسی بھی امام یا مجتہد کی تصنیف و تحقیق شائع نہیں ہوئی ہوئی تھی حتی کہ جب کسی حدیث کی کتاب کی باقاعدہ تدوین بھی نہیں ہوئی تھی‘ دین اس وقت بھی مکمل تھا۔ نماز اس وقت بھی پڑھی جاتی تھی۔ روزہ تب بھی رکھا جاتا ہے۔ باقی زندگی کے معاملات بھی چلتے تھے۔ ہاں مگر اختلافات بھی تھے مگر ان اختلافات نے فرقوں کو جنم نہیں دیا تھا کیونکہ وہ لوگ “سوچتے” تھے اور سوچنا اس وقت ” مسئلہ” نہیں تھا۔

 

حصہ

جواب چھوڑ دیں