دہشت گردی اور مغرب کا دوہرا معیا

دہشت گردی’ ایک ایسا لفظ ہے جس کا موجودہ دور میں عالمی سطح پر کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے _ بین الاقوامی میڈیا ہو یا ملکی میڈیا ، یہ دونوں کا پسندیدہ موضوع ہے _ حکومتوں کے سربراہوں کے درمیان گفتگو کے ایجنڈے میں ترجیحی طور پر اس کی شمولیت رہتی ہے اور وہ سر جوڑ کر اس کے تدارک کی تدابیر سوچتے ہیں _ دہشت گرد افراد ، تنظیموں اور اداروں کی فہرستیں تیار اور شائع کی جاتی ہیں اور ان کی سرکوبی کے لیے ان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں _ ‘دہشت گردی’ کو اب ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے _ اپنے کسی مخالف کو بدنام کرنا ہو ، اسے کم زور کرنا ہو ، اسے راستے سے ہٹانا ہو ، یا اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگوانی ہو تو بغیر تحقیق اور ثبوت کے ، اس پر دہشت گردی کا الزام لگا دیا جاتا ہے _ یہ اصطلاح اس قدر بدنام ہوگئی ہے کہ اس کے ساتھ قتل و غارت گری ، ظلم و ستم ، لوٹ مار ، بدامنی اور انارکی کے تصورات وابستہ ہوگئے ہیں _ کسی کو دہشت گرد کہہ دیا جائے تو اس کے لیے معمول کی زندگی گزارنا ناممکن ہوجاتا ہے ، اس کی پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی ہے اور وہ چھپا پھرتا ہے ، سماج کے عام افراد اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور اس کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے _ طرفہ تماشا یہ ہے کہ لفظ ‘دہشت گردی’ کا عالمی سطح پر پرچار کرنے میں وہ ممالک اور ان کے سربراہان پیش پیش رہے ہیں جنھوں نے خود قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہے ، لاکھوں بے قصور انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے ، زبردست بمباری کرکے ہنستی کھیلتی بستیوں کو ویران کیا ہے _ ان کے نزدیک ان کے ان تمام کارہائے نمایاں پر ‘دہشت گردی’ کا اطلاق نہیں ہوتا _ دوسری طرف یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے دوسرے افراد ، تنظیموں ، اداروں اور ممالک پر ، بغیر تحقیق اور ثبوت کے ، جھوٹے الزامات لگائے ہیں ، بے قصور افراد کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں داخلِ زندان کیا ہے ، بغیر کسی جرم کے اسلام کے غلبہ و نفاذ کے لیے پرامن جد و جہد کرنے والی ، اپنی سرزمین کو غاصبوں کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کرنے والی اور رفاہی خدمات انجام دینے والی تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی ہے اور وسیع آبادیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے _ بعد میں جب حقیقت سامنے آئی تو پتہ چلا کہ ان کے لگائے گئے سارے الزامات جھوٹے اور من گھڑت تھے _ دہشت کے معنی ہیں ڈر ، خوف ، ہیبت وغیرہ _ دہشت پیدا کرنے اور خوف میں مبتلا کرنے میں اصلاً کوئی برائی نہیں ہے _ فوج داری کے جتنے قوانین ہیں وہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے انسانوں میں دہشت پیدا کرتے ہیں ، لیکن وہ سماج کو پاکیزہ رکھنے کے لیے ضروری ہیں ، اس لیے انھیں برا نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ جب عام فوج داری قوانین سے کام نہیں چلتا اور بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو نہیں ملتا تو حکومتیں سخت ترین خصوصی قوانین بنانے پر مجبور ہوتی ہیں ، جن سے مجرموں پر دہشت قائم ہو اور وہ اپنے مذموم ارادوں اور گھناؤنی حرکتوں سے باز آجائیں _ ہر ملک اپنی فوج تیار کرتا ہے ، اسے بھاری اسلحہ سے لیس کرتا ہے ، اسے زیادہ سے پروفیشنل بنانے کی کوشش کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر خطرناک اسلحہ کا ذخیرہ جمع کرتا ہے ، تاکہ دیگر ممالک پر اس کی ہیبت اور دھاک بیٹھی رہے اور کوئی ملک اس کی طرف نگاہِ غلط اٹھاکر نہ دیکھے اور اس سے الجھنے کی کوشش نہ کرے _ اس چیز کو غلط نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ یہ آج ہر ملک کی بنیادی ضرورت ہے ، حتی کہ بعض ممالک اپنے بجٹ میں تعلیم ، صحت اور شہری سہولیات وغیرہ سے زیادہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں _ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عمل سے دہشت پیدا ہورہی ہے تو وہ فی نفسہ برا نہیں ہے ، بلکہ اس کا غلط استعمال اسے برا بنادیتا ہے_ انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ، ان پر ظلم و ستم ڈھانا ، ان کی جانوں اور مالوں سے کھلواڑ کرنا ، قتل و غارت گری مچانا ، آبادیوں کو تہس نہس کرنا ، رہائشی علاقوں کو ویران کردینا ، کھیتیوں کو بنجر بنادینا ، یہ وہ دہشت گردی ہے جو حد درجہ قابلِ مذمّت اور لائقِ نفرت ہے _ اس کا ارتکاب چاہے افراد کریں یا تنظیمیں یا حکومتیں ، ہر صورت میں اسے روکنے کی کوشش کرنا ، اس پر قدغن لگانا اور اس کی سرکوبی کرنا متمدّن سماج کی ذمے داری ہے _ حکومتوں کو مل جل کر اس کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے _ لیکن جہاں تک ایسی تدابیر اختیار کرنے کا تعلق ہے جن سے مجرمانہ عناصر دہشت زدہ ہوجائیں اور وہ قتل و غارت گری کے اپنے مذموم ارادوں سے باز آجائیں تو یہ تمدّنی طور سے بھی مطلوب ہے اور دینی اعتبار سے بھی _ اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ اتنی طاقت و قوت کے مالک بنیں کہ ان کے دشمنوں پر دہشت قائم ہوجائے اور وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ہمت نہ کرسکیں _ ارشاد ہے : ” وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ ” ( الانفال:60 ) ” اور تم لوگ ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان (دشمنوں ) کے مقابلے کے لیے تیّار رکھو ، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے (دشمنوں ) کو خوف زدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے ، مگر اللہ جانتا ہے _” مسلمانوں کے عہدِ عروج میں ان کے دشمنوں پر ان کا اتنا رعب و دبدبہ رہتا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف خفیہ چالوں سے باز رہتے تھے اور ان پر حملہ کرنے کی ہمت نہ رکھتے تھے ، لیکن عہدِ زوال میں مسلمان ان کے لیے لقمہ تر بن کر رہ گئے _ موجودہ دور میں الحمد للہ مسلم حکومتوں کو اللہ تعالی نے مال و دولت کی فراوانی عطا کی ہے _ ‘سیّال سونا’ اور قدرتی گیس کے بڑے بڑے ذخائر سے وہ مالامال ہیں _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے اور ان وسائل کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھتے اور عسکری طور پر خود کو مضبوط بناتے ، لیکن افسوس صد افسوس کہ انھوں نے مال و دولت کو عیّاشیوں میں اڑایا اور آرام پسند زندگی گزارنے لگے _ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ عزت و سربلندی فلک بوس محلات ، اونچی اونچی بلڈنگوں اور پُر تعیش سہولیات سے نہیں ملتی ، بلکہ وہ طاقت ور کا نصیب ہوتی ہے _ پہلے طاقت کی علامت قرآن کی زبان میں گھوڑے ہوتے تھے _آج ترقی یافتہ ٹکنالوجی نے ان کی جگہ لے لی ہے _

حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں