دی لیڈی ۔۔۔کہانی ایک قاتل عورت کی

دو ہزار گیارہ میں ہالی ووڈ نے میانمار میں جمہوری جدوجہد کرنے والی نوبل ایورڈ یافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی” دی لیڈی “کے نام سے ایک مووی بنائی جس میں برما میں ان کے حالات زندگی اور جمہوری جدوجہد کو دکھایا گیا ،جس سے دنیا بھر میں ان کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوا۔

انیس سو سینتالیس میں برما کی جدوجہد آزادی کے ہیرو جنرل آنگ سان جب آزادی کی جدوجہد میں قتل کردیئے گئے تو ان کی اکلوتی بیٹی آنگ سان سوچی صرف 2 سال کی تھی۔ برما آزادی کے فوراً بعد ہی اپنے فوجی جنرلوں کے ہوس اقتدار کا شکار ہوگیا۔ فوجی حکومت نے 1960ء میں سوچی کی والدہ کو بھارت میں سفیر مقرر کیا، اس طرح سوچی کو اپنی والدہ کے ساتھ بھارت منتقل ہونا پڑا جہاں انہوں نے نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی سے سیاست میں گریجویشن کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ چلی گئیں جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف لندن سے ڈاکٹریٹ کیا۔ 1972ء میں سوچی نے ایک برطانوی اسکالر ڈاکٹر مائیکل ہیرس سے شادی کی۔ 1988ء میں انہیں اپنی بیمار والدہ کی تیمارداری کے لئے وطن واپس لوٹنا پڑا۔ برما میں فوجی حکومت قائم تھی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر تھیں۔

آنگ سان سوچی کو جمہوریت کی خاطر جدوجہد کرنے  اور اس دوران مصائب اور مشکلات کا جوانمردی سے مقابلہ کرنے پرامن کا  نوبل پرائز  دیا گیا ،آنگ سان سوچی نے برما میں پندرہ سال  زیر حراست گذارا اور اسی دوراں ان  کے شوہر اور بچے لندن میں مقیم رہ کر ان کی رہائی اور ویزے کی کوششیں کرتے رہے،نظربندی  کےدوران 1999ء میں ان کے شوہر کا کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا جن کا آخری دیدار بھی انہیں نہیں کرنے دیا گیا۔

جن حالات اور مشکلات سے آنگ سان سوچی کو گذرنا پڑا اور دنیا ان کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی رہی وہ انسانیت دشمنی، مسلمانوں کی نسل کشی،ظلم اور ستم کے بوجھ تلے  دفن ہوگئی ہے۔

عام طور پرایک  مظلوم انسان دوسرے مظلوم انسانوں کے دکھ درد کو  سمجھتا ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرکے ان کے دکھ درد کا مداوہ کرتا ہے مگر یہاں معاملہ الٹا ہے،نوبل ایورڈ یافتہ آنگ سان سوچی اقتدار میں آنے کے بعد بنیادی انسانی حقوق اور اخلاقیات کو بھلا کر مسلمانوں کی نسل کشی کے اقدامات پر خاموش رہ پس پردہ  ان کی رہنمائی کررہی ہیں۔

اس وقت میانمار میں معصوم بچوں،عورتوں اور مردوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے،ان کے گھر ،کھیت کھلیان سب کچھ جلا کرخاکستر کردیا گیا اور دنیا امن پسند  بڈھسٹوں کا بھیانک چہرہ دیکھ رہی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا  پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔

فلم کے مطابق آنگ سان سوچی مہاتما گاندھی اور نیلسن منڈیلا کے عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتی ہیں اوردنیا بھر میں جمہوری جدوجہد کی علامت کے طور پر ابھرکر سامنے آئی ہیں لیکن برما کے مسلمانوں کی ان کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے یہاں ان کے عدم تشددکا فلسفہ بے یقینی کا شکار ہے ۔

آنگ سان سوچی نے برما کے عوام کو”خوف سے آزادی“ کا نعرہ  دیا  لیکن  ان کے اپنے ملک مسلمانوں پر وہ ظلم و ستم اور قتل غارت گری داستانیں رقم ہوئیں ہیں کہ”خوف سے آزادی“ کا نعرے پر سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں کی کہیں اس نعرے کا مقصد الٹا تو نہیں ہے؟حقیقت یہی ہے کہ اقتدار کے نشے میں انسان اپنا ماضی اور سب کچھ بھول جاتا ہے۔

 

حصہ
mm
عبدالرشید دل تحقیق کار، مترجم اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں۔ آج کل تدریس کےشعبہ سے منسلک ہونےکےساتھ ساتھ پاکستان جرنل آف نیورولوجکل سائنسز کے مئنجنگ ایڈیٹر بھی ہیں

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں