یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا۔

آج بہت دنوں بعد کسی کو خط لکھنے کے لئے قلم اٹھایا، تو خیال آیا کہ ہمیں دوست کا پتہ ہی معلوم نہیں ۔ سستی، بے پروائی اور وقت کی کمی کے بہانے تو پہلے بھی تھے، پھر بھی ہم طوعاً وکرہاً خط لکھ ہی لیا کرتے تھے۔ برق گرے اس ای میل پر جب سے ہم اپنے کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ سے متصل ہوئے ہیں، ہمیں دوستوں کا پتہ نہیں اُن کا برقی پتہ محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔ اور موبائل کی آمد کے بعد سے تو گویا قلم و کاغذ سے رہا سہا تعلق بھی جا تا رہا۔ خط و کتابت اب ماضی بعید کا قصہ بن چکا ہے۔ کورے کاغذ کی خوشبو ناک سے ٹکرائے اک عرصہ بیت گیا، زبان گوند کا ذائقہ ہی بھول گئی ہے اور آنکھوں نے ڈاکیے کی راہ تکنا چھوڑ دی ہے۔ اس برقی نامے نے خط و کتابت سے وابستہ سارا رومان ملیامیٹ کردیا ہے۔ اب تو آپ نے اپنا کھاتہ کھولا، پیغامات پڑھے، فوراً ہی ایڈیٹر پر جواب لکھا اور دے مارا۔ نہ خیالات صحیح سے مجتمع ہو پاتے ہیں، اور نہ ہی القاب و آداب کا اہتمام ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل کے اپنے طریق اور آداب ہیں، جن کو etiquette کے وزن پر netiquette (یعنی نیٹ کے آداب) کہا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ تختہ کلید (کی بورڈ، کی پیڈ) میں وہ بات کہاں جو قلم و قرطاس کی گرفت میں ہوتی ہے۔ اور جس “رومن اردو” سے ہمارا مستقل سابقہ پڑتا ہے، اس سے متعلق ہمیں اپنے دوست رضا صاحب کی رائے سے مکمل اتفاق ہے کہ بندہ پاجامے پر ٹائی پہن لے، جان کو ’’jan‘‘ نہ لکھے۔

جی ہاں، بے چارے شاعروں کے لئے طبع آزمائی کا ایک اور باب بند ہو چلا ہے۔ اب کون نامہ برکو یوں کوسے گا:

نامہ لاتا ہے وطن سے، نامہ بر اکثر کھلا

چاند، بالا خانے، پنگھٹ اور رفو وغیرہ جیسے موضوعات، ٹیکنالوجی کی آمد کے باعث پہلے ہی متروک ہوچکے ہیں۔ اب تو نہ وہ انتظار کی تشنگی، نہ خط ملنے پر نشاط ، نہ فاصلے کا گمان اور نہ ہی نامہ گم ہونے کا اندیشہ، ور نہ تو:

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یارب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

اسے رجعت پسندی کہیں یا یادش بخیریا۔ مجھے کئی بار دوستوں کی طرف سے ایسا برقی رقعہ پڑھنے کو ملا جس میں انہوں نے اپنی پچھلی mail سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ یعنی ’’میں جلدی میں تھا، نہ جانے کیا کیا لکھ گیا‘‘، یا ’’میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا‘‘ یا ’’ پچھلے پیغام کو نظر انداز کردیں‘‘، وغیرہ وغیرہ۔

انٹرنیٹ پر باہمی دلچسپی پر قائم کئی برقی گروہوں میں ممبران بحث میں الجھتے ہیں، پھر وضاحتیں کرتے ہیں، پلٹتے ہیں، پھر جھپٹتے ہیں۔ یہ مانا کہ خط و کتابت کے دنوں میں بھی دنیا امن کا گہوارہ نہیں تھی پر دشمنیاں لمحوں میں نہیں بڑھتی تھیں، نہ دوستیاں چند ساعتوں میں سمٹتی تھیں۔ پہلے دشمنیوں پر فاصلے کی روک تھی، اب فاصلے صرف محبت میں ہی نہیں رقابتوں میں بھی سمٹ گئے ہیں۔ برقی زندگی آپ سے برقیانہ تقاضے کرتی ہے، ابھی ہم سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ خود کو ’’send‘‘ کا بٹن دباتے ہوئے پاتے ہیں۔ اور کمان سے نکلے تیر کی طرح یہ باتیں واپس نہیں آتیں بلکہ حافظے کے ساتھ ساتھ کسی اور جگہ بھی محفوظ ہو جاتی ہیں اور سند کے طور پر دوبارہ پیش کی جا سکتی ہیں۔ موبائل کے روز افزوں استعمال نے، موبائل ہو یا انٹرنیٹ، برقی رقعے ہوں یا سماجی ابلاغ (social media)، ہر جگہ سوچ اور ابلاغ کا فاصلہ گھٹتا جا رہا ہے بلکہ اب ہمارے جہری خیالات (loud thinking) بھی مفاد عامہ کے لئے نہ جانے کہاں تک پھیل جاتے ہیں۔

پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے نہ جانے کس ترنگ میں آکر اپنی منگیتر کو’’ پتہ پتہ، بوٹا بوٹا حال ہمارا۔۔۔‘‘ کا انگریزی ترجمہ برقی پیغام میں لکھ بھیجا یہ کام یعنی انہوں نے شاید پانچ منٹ میں کیا ہو۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں انہیں خیال آیا کہ اس اللہ کی بندی کو میری انگریزی اور شاعری کی کیا سمجھ آئے گی، کچھ کا کچھ مطلب نہ نکال لے۔ فوراً ہی دوسرا نامہ بھیجا کہ ’’ میری گزشتہ میل کو نظر انداز کردیں۔ یہ میرے خیالات نہیں تھے۔‘‘ ابھی یہ نامہ بھیجا ہی تھا کہ سوچنے لگے ’’یہ میرے خیالات نہیں تھے! کیا یہ میرے خیالات نہیں تھے، کیا میں واقعی یہ کہنا چاہتا تھا؟ وہ آخر کیا سوچے گی۔‘‘ اور انہوں نے دس منٹ کے اندر تیسری میل کی اس کے بعد دیر تک یہ سوچتے رہے کہ ان کے خیالات اصل میں ہیں کیا۔ خود بتاتے ہیں کہ کچھ عرصے پہلے تک وہ خط لکھتے تھے، پھاڑتے تھے، پھر لکھتے، پھاڑتے، حتیٰ کہ صبح سے شام ہوجاتی ۔ لیکن ان کے مخاطب کو ان کے خیالات کی بھنک نہیں پڑتی تھی۔

اب تک کم از کم خط و کتابت کے معاملے میں ہم بجلی کے محتاج نہ تھے، چاہے کتنے ہی دنوں کے لیے بجلی غائب ہو، ہمیں یاروں کو خط لکھنے اور انہیں وصول کرنے سے کوئی نہ روک سکتا تھا، علاوہ ڈاکیے کے ۔کچھ لوگ یوں نکتہ آرائی کرتے ہیں کہ اب پیغام رسانی کے لیے ہمیں انسانوں کی ضرورت نہیں، انسان تو انسان کسی بھی جاندار کے محتاج نہیں۔ صحیح بات ہے، اب ہمارے رقعے انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ مشینوں سے گزر کر منزل تک پہنچتے ہیں اور مشینیں ان کے ساتھ کوئی سلوک نہیں کرتیں، من و عن پہنچا دیتی ہیں۔

اب یہ سہولت بھی برقی رقعے میں ہی ہے کہ اپنی تحریر کی کاربن کاپی بیسیوں لوگوں کو بیک وقت بھیجی جاسکتی ہے۔ گویا آپ کئی لوگوں سے بیک وقت کسی بھی طرح کا اظہار خیال کرسکتے ہیں اور ایسے کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ اس اظہار کا اکلوتا مخاطب وہ ہی ہے۔

مجھے اپنے کھاتے میں روز بے شمار پیغام وصول ہوتے ہیں، جن کا مخاطب ’’میں‘‘ نہیں بلکہ ایک مخفی گاہک ہوتا ہے، کسی کو میرا جلد رشتہ کرنے کی فکر، کوئی مجھے میرے قرض سے چھٹکارا دلانا چاہتا ہے۔ کوئی ٹھیک 90 دن کے اندر وزن دس پاؤنڈ تک گھٹانے کا نسخہ بتلاتا ہے اور کوئی میری نفسانی خواہشات کو چارہ ڈالتا ہے۔ غرض یہ کہ لگتا ہے اپنا ای میل اکاؤنٹ نہیں کھولا بلکہ بازار کا رخ کرلیا ہے۔ جہاں سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں بلکہ لگا رہے ہیں۔ کانٹوں بھری راہ پر تو بندہ دامن بچالے، ماؤس کیونکر بچائے۔

جیسا کہ عرض کیا برقی خط تو اب پرانا قصہ ہو گیا۔ اب تو ہم اپنا ڈاکخانہ ساتھ لیے گھومتے ہیں ۔ جی ہاں ہمارا اشارہ موبائل کی جانب ہے۔

حصہ
علی منظرایک ابھرتے ہوئے قلم کار ہیں،ان دنوں میں لاہور میں آئی ٹی پروفیشنل کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ alimanzer@gmail.com

جواب چھوڑ دیں