صحافت پڑھ لو، بہت اسکوپ ہے

پاکستان میں دیگر بہت سارے مسائل کے ساتھ ایک سلگتا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملکی سطح پر کوئی موثر اور منظم تعلیمی پالیسی نہیں ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پہلے ہی عضو معطل تھا اوپر سے اٹھارویں آئینی ترمیم نے اس کا بھرکس نکال دیا۔ صوبوں نے اپنے ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنانے شروع کر دئے اور ان میں ماہرین تعلیم کے بجائے سیاسی رہنما بھرتی کرنے لگے، وہی سیاسی رہنما اربوں روپے کرپشن کیسز میں جیل بھی جاتے ہیں اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے کرتا دھرتا بھی بنے بیٹھے ہیں۔ تعلیمی میدان میں ایک اور تباہ کن رویہ ٴٴ فلاں مضمون پڑھ لو بہت اسکوپ ہےٴٴ والا دور آیا ہے۔ طالب علم اپنی دلچسپی اور رجحانات چھوڑ کر اسکوپ کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ماضی قریب کی بات ہے جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے پاکستان کو اپنے لپیٹ میں لیا تو ہر طرف ایک ہی چرچا تھا، کمپیوٹر سائنس پڑھ لو بہت اسکوپ ہے۔ اس کے بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں کمپیوٹر سائنس کی نشستیں کم پڑ گئیں۔ گلی گلی کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کھل گئے اور چھوٹے بڑے سب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین بن کر لاکھوں میں کھیلنے کے خواب دیکھنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 4 سال کے اندر اتنی افرادی قوت میدان میں آگئی جتنے پاکستان میں کمپیوٹر بھی نہیں تھے۔ اس کے بعد ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بزنس ایڈمنسٹریشن کے ماہرین پیدا کرنے کی ہدایت کی لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ پاکستان میں کتنے ماہرین کی ضرورت ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں جگہ کم پڑ گئی تو بزنس ایڈمنسٹریشن کے ہزاروں پرائیویٹ ادارے کھل گئے، جہاں سے بی بی اے اور ایم بی اے کی ڈگریوں کی بندر بانٹ شروع ہوگئی۔ آج ہر دوسرا نوجوان ایم بی اے کی ڈگری لیکر نوکری تو دور انٹرن شپ کیلئے خوار ہوا پھرتا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے، سادہ سا جواب ہے، ملکی سطح پر تعلیمی پالیسی اور گائیڈ لائنز نہیں۔ نوجوان اسکوپ کے پیچھے دھڑا دھڑ بھاگے جارہے ہیں اور آخر گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کی بہتات کے بعد حالیہ برسوں میں پوری نسل مس گائیڈڈ میزائل کی طرح ماس کمیونیکیشن کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ جب نوجوان لڑکے لڑکیاں انٹر کے بعد ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لیتے ہیں تو خود کو اینکر محسوس کرتے ہیں اور خیالوں میں ہی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ اپنے ٹاک شو میں کس کس کو بلائیں گے اور 4سال بعد ڈگری لیکر نکلتے ہیں تو سوچتے ہیں انٹرن شپ کیلئے کس کے پاس جائوں۔ پاکستان میں گنتی کے چینل اور اخبارات ہیں لیکن ہر سال ہزاروں طلبہ اینکری کا خواب آنکھوں میں سجائے یونیورسٹیوں سے فارغ ہوتے ہیں۔ بخدا بڑا ترس آتا ہے جب ایک طالب علم 18 سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی مفت کی انٹرن شپ کیلئے خوار ہوا پھرتا ہے۔ صحافت کا گلیمر دیکھ کر سر پٹ بھاگنے سے گریز کیجئے۔ آدھا تیتر، آدھا بٹیر کے بجائے اپنی دلچسپی اور رجحانات کے مطابق شعبہ منتخب کرکے اس میں نام پیدا کیا جائے۔ اگر آپ کو صحافت میں ہی دلچسپی ہے تو پھر چند باتوں کو ذہن نشین کیجئے۔ ڈگری لینے کے ساتھ ہی اینکری کا خواب چھوڑ دیں، کئی مہینے مفت میں انٹرن شپ کیلئے دماغ بنائیں۔ اسکول کے بچوں کے طرح نوٹس اور امپورٹنٹ چھوڑ کر وسیع مطالعہ کریں۔ روزانہ اخبارات و رسائل، ادب، سیاست، تاریخ، بین الاقوامی تعلقات و دیگر متعلقہ موضوعات پر گرفت مضبوط کریں۔ خبر، فیچر، رپورٹ، کالم لکھنا سیکھیں۔ اسائنمنٹ میں کاپی پیسٹ اور امتحانات میں نقل چل سکتی ہے لیکن اخبار یا ٹی وی میں ایڈیٹر کے سامنے بیٹھ کر ایسا کچھ ممکن نہیں ہوتا۔ کراچی یونیورسٹی کی دیوار پر ایک وال پیپر لگا تھا۔ نوجوان ماسٹر میں گولڈ میڈل لیکر اخبار کے دفتر میں نوکری کیلئے گیا۔ ایڈیٹر نے پوچھا، خبر بنا سکتے ہو، نوجوان نے جواب دیا نہیں، ایڈیٹر نے پوچھا، رپورٹ، فیچر، کالم لکھ سکتے ہو، نوجوان نے تمام سوالوں کا جواب نفی میں دیا۔ ایڈیٹر نے ڈگری اس کو واپس پکڑاتے ہوئے کہا، ہم اخبار میں خبریں، رپورٹ، فیچر اور کالم چھاپتے ہیں، ماسٹر ڈگری اور گولڈ میڈل نہیں۔

حصہ
، نور الہدیٰ شاہین صحافت کے طالب علم اور سماجی کارکن ہیں۔ مختلف سماجی موضوعات پر سوشل میڈیا کے ذریعے مہمات چلاتے ہیں جن میں فروٹ بائیکاٹ مہم اور وی آر گرین شجر کاری مہمات بھی شامل ہیں۔

جواب چھوڑ دیں