کس پہ اعتبار کرے کوئی

میں نے جونہی اپنی بائک لیاقت آباد انڈر پاس میں داخل کی تو سامنے کھڑی ایک بائک پر نظر پڑی جس پر بیٹھا ایک شخص مدد مانگنے کے سے انداز میں مجھے رکنے کا اشارہ کررہا تھا۔ اس کے قریب ہی ایک خاتون بھی کھڑی تھی جس کی گود میں دو تین سال کی ایک بچی بھی تھی۔

میں نے جیسے ہی اپنی موٹر سائیکل ان لوگوں کے پاس روکی تو وہ شخص بجلی کی سی تیزی سے میری طرف آیا اور نہایت پریشانی کے عالم میں اپنا موبائل مجھے تھمانے لگا۔ ابھی میں کچھ سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ وہ خود بتانے لگانے لگا، اس نے کہا کہ وہ کسی ضروری کام کے سلسلے میں اپنی بیگم اور بچی کے ساتھ جارہا تھا، سارے پیسے بیگم کے بیگ میں تھے جو کہ کہیں گرگیا ہے۔ یہ کہتے ہی اس نے اپنا موبائل ایک مرتبہ پھر میری طرف کیا، اب جب میں نے اس سے اس بارے میں پوچھا تو کہنے لگا کہ ہماری موٹر سائیکل خراب ہوگئی ہے۔ مکینک نے ٹھیک کرنے کے چار سو روپے مانگے ہیں، آپ ہماری مدد کردیں اور جب تک ہم آپ کے پیسے لوٹا نہ دیں آپ یہ موبائل اپنے پاس رکھ لیں۔ ابھی میں موبائل لینے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ موبائل اگر میں نے رکھ لیا تو اس شخص سے رابطہ کیسے ہوگا۔ یہ خیال آتے ہی میں موبائل میں نے اسکی طرف واپس لوٹا دیا۔

قصہ مختصر تپتی دھوپ میں اس شخص کے ساتھ کھڑی خاتون اور انکی بچی کو دیکھ کر میرے دل میں ہمدردی کی ٹیس اٹھی اور میں نے انکی مدد کرنے کا ارادہ کرلیا۔مگر اسکے کے باوجود میں تذبذب کا شکار تھا، بالآخر میں نے خود کو تسلی دی کہ میں تو ایک جہاں دیدہ انسان ہوں، کوئی ایرا غیرا تو مجھے بیوقوف بنانے سے رہا، دیکھنے میں پریشان مسافر لگ رہے ہیں انکی مدد کردینی چاہئے۔

نام اور نمبر پوچھنے کے بعد مس کال دے کر تسلی کی اور انہیں پیسے دے کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ دو تین دن ہونہی اس بندے کی کال کا انتظار کرتے ہوئے گزر گئے، آخر چوتھے روز میں نے اسے خود کال کی۔ اس نے فورا ہی مجھے پہچان لیا اور اگلے ہی لمحے گالیوں کی بوچھاڑ کرکے فون کال منقطع کردی۔ اب جو نظر میں نے موبائل سکرین پر ڈالی تو پتا چلا کہ ہماری بات صرف بارہ سیکنڈز تک ہوئی مگر ان بارہ سیکنڈز میں وہ شخص میری سوجھ بوجھ اور زمانہ شناسی کا عملی طور پر جنازہ نکال چکا تھا۔

دل بہلانے کیلئے میں نے خود کو تسلی دی کہ نیکی کرکے ویسے بھی دریا میں ڈال دینی چاہیے،میں نے مسکراتے ہوئے موبائل جیب میں ڈال دیا مگر اندر ہی اندر مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ ہمیں ذہانت و فطانت پر گھمنڈ کبھی بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہر سیر پر سوا سیرضرور ہوتا ہے۔

 

حصہ
توقیر ماگرے,جامعہ کراچی کے شعبہ بائیوٹیکنالوجی میں زیر تعلیم ہیں, حال ہی میں لکھنا شروع کیا ہے. شاعری سے لگاو ہے. معاشرتی مسائل, سیاست اور کھیل پرلکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ان سے اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے tauqeer.magray@gmail.com

جواب چھوڑ دیں