شاہراہ زندگی پر وقت کی تنظیم و ترتیب کی اہمیت

وقت ایک انمول دولت ہے اور اس کی اہمیت سے وہی لوگ واقف ہوتے ہیں جو جانتے ہیں کہ وقت ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہم وقت کے ساتھ چلتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان وقت پر قابو نہیں پا سکتا ہے۔جب انسان وقت پر قابو نہیں پا سکتا ہے تب ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق گزاریں۔آدمی کے طرز اوقات گزاری سے اس کی زندگی کے مقاصد کا پتا چلتا ہے کہ وہ زندگی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔اﷲ رب العزت نے تما م انسانوں کو سال کے 365دن اور 12 مہینوں کا عظیم تحفہ یکساں عنایت فرمایا ہے۔ہر انسان کو ہفتے کے سات دن اور ہر دن کے 24گھنٹے ،1440منٹ اور86,400سیکنڈ دستیاب ہیں۔یہ گھڑیاں بعض افراد کو زیادہ اور بعض کو کم کیوں محسوس ہوتی ہیں؟اس سوال کا نہایت ہی آسان اور سہل جواب ہے کہ’’ کسی بھی فرد کی تنظیمی صلاحیت اس کے شخصی شوق و ذوق، ضروریات،سکت و توانائی اور قابلیت کا پر تو ہوتی ہے۔‘‘ تنظیم اوقات سے عاری دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو وقت کو برباد کرتے ہیں اور دوسرے درکار جگہ کے درسست استعمال سے نابلد حضرات۔ طلبہ جب اپنے وقت اور جگہ کے درست استعمال ،تنظیم و ترتیب سے آشنا ہوجاتے ہیں تو ان کی زندگی سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔ہے۔بہتر زندگی میں ترتیب و تنظیم کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں وقت کے ساتھ جگہ کی ترتیب و تنظیم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اکثر طلبہ وقت کی تنظیم و ترتیب کو تو ملحوظ رکھتے ہیں لیکن جگہ کے درست استعمال اور سلیقہ مندی سے خو د کو عاری رکھ کر ذہنی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔جو لوگ بامقصد زندگی گزار نا چاہتے ہیں یقینا ان کی زندگی میں ترتیب و تنظیم پائی جاتی ہے۔تنظیم و ترتیب کوئی عطائی شئے نہیں ہے جس کی ہم صرف آرزو ہی کر سکتے ہیں۔ ترتیب ،تنظیم اور سلیقہ مندی انسان اپنی کوشش ،کاوش اور مسلسل عمل سے حا صل کر سکتا ہے۔امت مسلمہ اپنے عروج کے دور میں جن اچھے اوصاف کی وجہ سے مشہور تھی ان میں زندگی میں تنظیم و ترتیب بھی ایک اہم وصف ہے۔ایک مسلمان طالب علم کے لئے کیا ہر انسان کے لئے نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے ۔بنی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہر کام میں ہم کو تنظیم و ترتیب دیکھنے کو ملتی ہے۔ہرکام کا ایسا نظام الاوقات اور ہر چیز کو ایسی جگہ پر رکھا گیا ہے کہ اس میں کسی تبدیلی کی آج بھی کوئی ضرورتمحسوس نہیں ہوتی ۔ہر طالب علم کے لئے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کاادراک ضروری ہے ۔جب طلبہ اپنی صلاحیتوں سے واقف ہوجاتے ہیں تو ان کو نکھارنے اور پروان چڑھانے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو موثر اور بہتر بنا سکیں۔منصوبہ بندی کے ذریعہ ایک مصروف آدمی بھی ہمیشہ فارغ رہ سکتا ہے بقول بل کلنٹن سابق صدر امریکہ ’’ایک مصروف آدمی کو ہمیشہ فرصت حاصل رہتی ہے۔‘‘میر ے پاس وقت نہیں ہے۔رکھی ہوئی چیز مجھے نہیں مل رہے ہے یہ ایک معذور ذہن کے حامل افراد کے بہانے ہوتے ہیں۔فورڈ کار کے موجد و مالک ہنری فورڈ کے مطابق ’’اگر نظام الاوقا ت کی مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو اتنی وقت میں دگنا کام کرتے ہوئے ہم دباؤ اور تناؤ سے خو د کو بچا سکتے ہیں۔‘‘امریکہ کے صدر سے لے کر ہماری ریاست کے چیف منسٹر تک سب کو صرف 24گھنٹے ہی دستیاب ہیں۔پھر وہ کیسے تمام امور میں توازن بر قرار رکھ رہے ہیں اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی میں تنظیم و ترتیب ہر وقت ہر پل دیکھی جاسکتی ہے۔

افراد کو بنیادی طور پر دو قسموں میں ایک ٹائم کنٹرولر(Time Controllers) اور دوسرا اسپیس کنٹرولر(Space Controllers) میں تقسیم کیا گیا ہے۔جان گیرے(John Grey)کے مطابق ٹائم کنٹرولرس کی مزید پانچ قسمیں پائی جاتی ہیں۔

کلف ہینگرس(Cliff Hangers)تساہل پسند لوگ:

تساہل پسندی کے شکار افراداکثر فیصلہ سازی کے عمل میں تاخیر کے عادی ہوتے ہیں یا پھر لمحہ آخر تک کسی کام کو ٹالنے یا موخر کرتے ہیں۔یہ لوگ جب تک ان پر کوئی بیرونی دباؤ اثر انداز نہیں ہوتا ،کام کی طرف مائل یا راغب نہیں ہوتے ہیں۔تساہل اور ٹال مٹول کرنے والے ایسے اشخاص کو کلف ہینگر س کہا جاتا ہے۔یہ لوگ تخمینہ سازی ،موازنہ اور اوقات کی تنظیم میں بہت ہی کمزور واقع ہوتے ہیں۔ٹال مٹول کی کیفیت کے عادی طلبہ کیلنڈریعنی انجام دینے والی سرگرمیوں کی ایک جامع فہرست کی تیاری (تقویم سازی) اور مصنوعی دباؤ پیدا کرنے کی عادات کو اپنا کر اپنی تساہل پسندی پر قابو پاسکتے ہیں ۔ مصنوعی دباؤ کی پیدائش سے مراد دلچسپ سرگرمی یا کام کو کسی اہم کام کے بعد اہمیت یا ترجیح دینا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ایک طالب علم کو رات میں چند کام انجام دینے ہیں جیسے

اپنے دوست سے گفتگو کرنا

آدھے گھنٹے کے لئے ٹیلی ویژن دیکھنا

رات کا کھانا کھانا

سونے سے قبل ایک گھنٹے تک اپنے اسکول یا کالج کے نوٹس لکھنا۔

اگر آپ تساہل پسندی (کلف ہینگر)کے شکار ہیں تب آپ رات کے کھانے پر نوٹس لکھنے کو ترجیح دیں تاکہ کھانے کے بعد آپ کی تساہل پسندی عود کر آپ کو پڑھنے اور لکھنے سے باز نہ رکھے۔

کمالیت پسندی کا شکار اشخاص(Perfectionists)

کمالیت پسندی کے مرض کا شکار افراد کسی بھی کام کو بہتر سے بہتر کرنے کی دھن میں اس کی جزئیات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے اکثر اپنے کام کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچا پاتے ہیں اور ان کا کام ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔اس کیفیت کے حامل افراد کو کمالیت پسندی کے فریب میں گرفتاراشخاص (Perfectionists) کے نام سے معنون کیاگیا ہے۔عمومی طور پر یہ لوگ نہیں سمجھ پاتے کہ ان کی اوسط کارکردگی بھی لوگوں کو بہتر طور پر قبول ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ عدم قبولیت کے وہم میں گرفتا ر رہتے ہیں۔ یہ اکثر کم ہمتی اور پست حوصلے کے حامل ہوتے ہیں۔اگر آپ کمالیت پسندی کے فریب کا شکار ہیں تو لازمی ہے کہ آپ اہم اور ضروری کاموں کی ترجیحات کے مابین تمیز کی صلاحیت پیدا کر یں تاکہ معمولی قسم کے کاموں میں اپنے معیار کو کم کر تے ہوئے کام کوپائے تکمیل تک پہنچا سکیں۔کمالیت پسندی کے مرض کی وجہ سے اکثر کام تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ایسی بیکار اور فضول قسم کی کمالیت پسندی سے اجتنا ب بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔امتحان کے وقت کمالیت پسندی کے اسی مرض کی بناء طلبہ ایک ہی سوال پر اتنا وقت صرف کردیتے ہیں کہ دیگر سوالات کے جوابات تحریر کرنے کے لئے وقت کی تنگی ہوجاتی ہے۔سوال کی اہمیت اور نشانات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر طلبہ جواب تحریر کریں گے توانھیں وقت کی تنگی کا شکوہ نہیں ہوگا۔کمالیت پسندی کے فریب میں ملوث افراد معیار کو بنیاد بنا کر کوئی بھی کام انجام دینے سے احتراز کرنے لگتے ہیں۔کام کو لگا تار اور مسلسل کرتے رہنے سے اس میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ابتدائی مراحل میں ہی اگر معیار کو بنیاد بنا کر طلبہ کام سے فرار حاصل کرنے لگ جائیں تب ناکامی ان کا مقدر بن جائے گی۔

اچھلو قسم کے طلبہ(Skippers)

اچھلو قسم کے طلبہ اکثر منصوبہ سازی میں پیش پیش اور عمل میں پیچھے رہتے ہیں۔وہ بڑے مقاصدکے تعاقب میں لگے رہتے ہیں اور مجموعی طور پر مسائل کو بہتر طور پر حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن بے صبر ی ان کے مزاج کا ایک اہم عنصر ہوتی ہے۔ایک طالب علم جو اپنے امتحان کے جوابی بیاض کو لوٹانے سے پہلے اس کی جانچ نہیں کر تاوہ بھی اچھلو(Skipper)کہلاتا ہے۔ خوش فہمی کی وجہ سے تفصیلات کو معمولی جان کر طلبہ جب روگردانی کر تے ہیں تب کئی تشویشناک پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔اس تبا ہ کن عادت سے چھٹکار ا حاصل کرنے کے لئے طلبہ اپنی روز مرہ زندگی میں انجام د ی جانے والی سرگرمیوں کی ایک فہرست کو تیار کرتے ہوئے اور اس کی جانچ و تنقیح کے ذریعہ اپنے ہر فعل کی اصلاح کو ممکن بنا سکتے ہیں۔

تماشہ بین (Fence Sitter)

فیصلہ سازی میں ٹال مٹول سے کام لینے یا پھر مسائل کے مثالی حل کے متلاشی عادت کے حامل افرادکوئی فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ان کو تماشہ بین (Fence Sitters) کہا جاتا ہے۔غلط فیصلہ سازی کے خوف سے یہ کوئی فیصلہ ہی نہیں لے پاتے ہیں۔ایک تما شہ بین فطرت کا حامل فرد اپنی کامیابی پراپنے دوستوں کے لئے ایک دعوت (پارٹی) کا اہتمام کرنا چاہتا ہے لیکن دعوت کو ملتوی کر دیتا ہے کیونکہ کبھی اس نے دعوت کا اہتمام ہی نہیں کیا ہے۔ریاضی (Mathematics)،کیمیاء(Chemistry)،طبعیات(Physics)یا کوئی اور مضمون کو مشکل سمجھ کر اس کو نہ پڑھنا طلبہ کی مشکلات کو اور بڑھا دیتا ہے۔جب کسی مشکل کا آپ کو اندازہ ہوجائے تب اس کو آسان بنا نے کی آپ کو سعی و کوشش کرنے چاہئیے نہ کہ مشکل سے دامن بچانے کے لئے میدان عمل سے ہی راہ فرار اختیار کر لی جائے ۔یہ کمزورں اور بزدلوں کا شیوہ ہوتا ہے۔تماشہ بینی کی کیفیت سے دوچار طلبہ کسی بھی کام کو شروع کرنے اور آگے بڑھانے کے فن سے نا بلد ہوتے ہیں۔والدین اور اساتذہ کو ایسے مرحلوں میں اپنی رہنمائی کے فرائض اتم طور پر انجام دینے ہوتے ہیں۔طلبہ ایسے مرحلے میں کام کو مختصر کرتے ہوئے ، متبادلات کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے، ترجیحا درجہ بندی کرتے ہوئے اور کام کی تکمیل کے لئے ایک حتمی تاریخ مقرر کرتے ہوئے اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔

Hoppers

بیک وقت کئی کام انجام دینے کی کوشش میں سبھی کاموں کو نا تمام ہی چھوڑ دینے والے افراد کو Hoppers کہا جاتا ہے۔یہ جلد باز ی اور تنوع سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ بہت جلد مطمین و مسرور ہوجاتے ہیں۔ اپنی بھر پور توانائی استعمال کرتے ہوئے یہ نہ صرف خو د کو فعال رکھتے ہیں بلکہ بیک وقت کئی منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہچانے کااشتیاق بھی رکھتے ہیں۔لیکن اس فطرت کے حامل اکثر افراد خود کے یقین و اعتماد پر کامل نہیں اتر پاتے ہیں۔اگر ایک طالب علم اپنے میں جب اس کیفیت کو محسوس کرتا ہے جو اس کی پڑھائی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہوتی ہے تب وہ اپنے افعال و اعمال کی بہتری کے لئے خصوصی منصوبہ بندی کر ے اور اسمارٹ(SMART) کے اصول کو اپنائیں۔یعنی مقاصد =Specific S مخصوص ہوں عمومی بالکل نہ ہوں۔ مقاصدM=Measurableیعنی قابل پیمائش ہوں،مقاصدA=Attainable قابل حصول و قابل عمل ہوں،مقاصد R=Realisticیعنی حقیقی ہوں اتنے چھوٹے بھی نہ ہوں کہ آپ کو تحریک بھی نہ دے سکیں اور اتنے بڑے بھی نہیں کہ آپ کے متعین کردہ وقت میں ان کو حاصل کرنا ناممکن ہو۔مقاصد T=Timeboundیعنی ان کی مدت معین ہوں۔بڑے کام کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کرتے ہوئے اور ہر چھوٹے ہدف کے لئے ایک وقت مقرر کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی جانب طلبہ رواں دواں رہ سکتے ہیں۔طلبہ کے اس عمل کی وجہ سے ان کو اپنے محاسبے کی عادت پڑجائے گی۔خود احتسابی ایک عظیم دولت ہوتی ہے اور جو اس سے متصف ہوجاتا ہے اس پر قدر ت مہربان ہوجاتی ہے اور اس پر علم ودولت کے خزانے لٹا دیتی ہے۔مذکور ہ پانچ شخصیات کی خصلتوں کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بہت زیادہ فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ان پانچ شخصیتوں میں پائی جانے والی خصلتیں مختلف تناسب اور مختلف حالات میں ہر ایک انسان اور طالب علم میں پائی جاتی ہیں۔تعین کردہ مقاصداورمقاصد تک رسائی ،مقاصد کے حصول میں کن امور پر قابو پانا اور کن امور کو آزادی فراہم کرنا،کب اور کہاں آرام کرنا اور کسیے مقصد کے حصول میں تندہی سے لگے رہنا ان تمام خصلتوں سے آگہی پیدا کرتے ہوئے طلبہ اپنے علمی سفر کو آسان اور پر کیف بنا سکتے ہیں۔


اسپیس کنٹرولر(
Space Controllers)

ٹائم کنٹرول خصلت پر سیر حاصل گفتگو کے بعد اب اسپیس کنٹرول پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔جب کوئی انسان کسی خا ص اور اہم کام کی انجام دہی میں منہمک ہوجاتا ہے تب افراتفری اور تنظیم و ترتیب سے پر ماحول کا پایا جانا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی ہم ہر شئے کو اس کے مقام پر رکھ سکتے ہیں۔جسے اسپیس کنٹرولنگ یعنی ترتیب اشیاء کہاجاتا ہے۔اسپیس کنٹرولر بھی پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔(1)ذخیرہ اندوز (Dumpers)یہ لوگ اپنی میز پر ہر چیز کو سجاکر خوش ہوجاتے ہیں کہ وہ اتنے سارے کام انجام دے رہے ہیں۔اس خصلت کے طلبہ سوچتے ہیں کہ چلو آج کام کو اکھٹاکرلیتے ہیں اور کام کی اشیاء نوٹس کتابوں اور دیگر دستاویزات کو بنا کسی احیتاط اور ترتیب کے یہاں وہاں اہم کاغذات کو کتابوں کے اندر رکھ دیتے ہیں۔ کام کے وقت اشیاء کی تلاش میں اپنا قیمتی وقت تباہ کردیتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی کے شائق طلبہ میں جگہ کی ترتیب اور تنظیم کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ضرورت کی وقت بہت ہی پریشان اور الجھن میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔والدین بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اشیاء کی ترتیب ،درجہ بندی ، اشیاء کو اٹھا کر رکھنے اور وقت ضرورت بغیر کسی الجھن کے ان کو حاصل کرنے کی سلیقہ مندی جیسے اپنے اسکولی جوتے، موزوں،اسکول بیاگ ،پین ،پنسل اور دیگر اشیاء کو سلیقہ مندی اور ترتیب سے رکھنے اور ان کو بغیر کسی الجھن اور وقت کی بربادی کے حاصل کرنے کی تربیت کا اہتمام کریں۔(2)کلین ڈسک(Clean Desk)کلین ڈسک سے مراد ہر شئے کو ترتیب اور سلیقہ مندی سے رکھنے والے طلبہ ہوتے ہیں۔اپنی زندگی میں سلیقہ مندی اور ترتیب کی وجہ سے ان کاکام او ر کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔یہ ہر شئے کوریکارذکرنے کے عادی ہوتے ہیں۔کلین ڈسک خصلت کے حامل افراد سختی سے روزانہ کام کی منصوبہ بندی کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔جب انسان اپنے روز مرہ کے افعال کی انجا م دہی کی منصوبہ بندی نہیں کرتا ہے تب وہ ذہنی الجھن و خلفشار کا شکار ہوکر اپنے معلنہ کام کی انجا م دہی میں ناکام ہوجاتا ہے۔(3)درست زاویہ نگا ہ کے حامل افراد(Right Anglers)جب تک یہ اشیا ء کو سلیقہ مندی سے رکھتے ہیں تب تک ان کو کسی بھی طرح کی افراتفری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔یہ لوگ صفائی اور ترتیب کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ہر شئے پر قابو اوراس کو درست رکھتے ہوئے کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں۔ آدمی سلیقہ مندی اور درجہ بندی کو اس حد تک نہ سوار کر لیں کہ کو ئی کام ہی آگے نہ بڑھنے پائے۔جب تک معمولی نظم(orthodox management)سے کام چلتا ہے اس سے کام لیتے رہیں۔ افراتفری اور بے ترتیب سے بچاؤ کے لئے سختی سے ان عادات کو تج دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس زمرے کے طلبہ اکثر بڑے کام انجام دینے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ وہ اس کو ایک ہی نشست میں مکمل نہیں کر سکتے ہیں۔اسی لئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہر بڑے کام کوآسان بنانے کے لئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹتے ہوئے انجام دیں تاکہ باآسانی کام کی تکمیل کو ممکن بنایا جاسکے۔(4) خول خود فریبی میں محروس افراد(پیاک ریاٹس)(Pack Rats) ؛جو شخص اپنی زندگی میں ترتیب و تنظیم کی کوئی سعی نہیں کر تا اور سمجھتا ہے کہ اس کی مراد کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی ایسے افراد کو پیاک ریاٹس کہا جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے دسترس میں واقع اشیاء کے بارے میں بہت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے غیر ضروری اشیاء کو بھی ایک خزانے سے کم نہیں سمجھتے ہیں۔کونسی شئے کو رکھا جائے اور کس کو پھینک دیا جائے یہ اس بات کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ایسی خصلت کے حامل طلبہ کو چاہیئے کہ وہ غیر ضروری اشیاء سے مفت یا معمولی قیمت پر دستبردار ہوجائیں۔طلبہ جگہ اور آرام کی اہمیت و افادیت کوملحوظ رکھیں۔(5)بد سلیقہ اشخاص(Total Slobs) یہ بھی ریاٹ پیاک افراد کی طر ح ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک فرق پایا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی شئے کو بغیر کسی ارادے اور مقصد کے ذخیرہ کرتے رہتے ہیں۔اپنی دسترس میں موجود اشیاء کی قدر و قیمت سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی فضول اشیاء سے یہ چھٹکارا حا صل کر نے کاکوئی ارادہ کرتے ہیں۔یہ اپنی زندگی اور اشیا ء میں تنظیم و ترتیب سے نفرت کرتے ہیں۔بچوں میں دراصل یہ رجحان ماں باپ کی جانب سے خراب تربیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔یہ غیر حا ضردماغ،چڑچڑے اور جلد آپے سے باہر ہونے اور افسردہ رہنے والے افراد ہوتے ہیں۔طلبہ اس کیفیت سے اپنی زندگی میں بتدریج تبدیلی اور تنظیم و ترتیب کو جگہ دیتے ہوئے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔مثلا اپنے کپڑوں اور دیگر اشیاء کو ادھر ادھر نہ پھینکیں اور ان کو ایک جگہ رکھتے ہوئے اپنے زندگی میں ترتیب و تنظیم کو پیدا کرنے کو کوشش کر یں۔

اب طلبہ کو خو د فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کونسے معیار زندگی کو اپنائیں گے۔اپنی جگہ کو صاف اور ترتیب و تنظیم سے رکھنا آپ کی شخصیت کی غمازی کرتا ہے۔آپ کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ،اور چاہی جانے والی شئے تک آپ کیسے پہنچ پائیں گے اور نہ بھی پہنچ پائیں تب آپ کیا کر یں گے۔انیسویں صدی کا ایک معروف شاعر فلسفی گوئٹے(Goethe) کہاتا ہے کہ “Things which matter most must never be at the mercy of things that matter least”(جو چیزیں نہایت اہم ہوتی ہے ان کو غیر اہم چیزوں کے رحم و کرم پر کبھی نہیں چھوڑا جاسکتا )اور جو اس بات کو اپنے زندگی کا جزو بنا لیتے ہیں وہی زندگی ترتیب و تنظیم والی زندگی کہلاتی ہے۔طلبہ اگر زمانہ طالب علمی سے وقت کی تنظیم اور جگہ کی ترتیب کی اہمیت کو ملحوظ رکھیں تو یقینی طور پر وہ مستقبل میں ایک کامیاب اور ذمے دار شہری بن سکتے ہیں۔تنظیم و تربیت کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو الجھنوں اور پریشانیوں سے پاک کر سکتے ہیں۔تنظیم و ترتیب کے ذریعہ نہ صرف طلبہ اپنی ذات کے لئے مفید ہوجائیں گے بلکہ یہ چیز قوم و ملت کے لئے ایک بہترین خدمت بھی ہوگی۔معروف فلسفی افلاطون کا قول نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔’’وقت ایک ایسی زمین ہے جس میں محنت کیے بغیر کچھ پیدا نہیں ہوتا ۔اگر محنت کی جائے تو زمین پھل دیتی ہے اور اگر بے کار چھوڑ دی جائے تو اس میں صرف خاردار جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے کرنے کے کام میں سو فیصد کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اس بات سے ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ ترجیحات کا علم تو ایسے وقت پر ہی کار آمد ہوتا ہے ۔اہمیت کے لحاظ سے کام کو ترجیح دیں اور اسے انجام دیں۔معاملات اور معمولات میں ہر حال میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بشیر جمعہ نے اپنی کتاب شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر میں شیر شاہ سوری کا ایک بہت ہی پیارا قول نقل کیا ہے میں اپنے مضمون کو اسی قو ل پر ختم کرتے ہوئے آپ کو فکر و عمل کی دعوت دیتا ہوں’’بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا سارا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے۔‘‘

 

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں