وقت ایک انمول دولت ہے اور اس کی اہمیت سے وہی لوگ واقف ہوتے ہیں جو جانتے ہیں کہ وقت ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہم وقت کے ساتھ چلتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان وقت پر قابو نہیں پا سکتا ہے۔جب انسان وقت پر قابو نہیں پا سکتا ہے تب ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو وقت کے تقاضوں کے مطابق گزاریں۔آدمی کے طرز اوقات گزاری سے اس کی زندگی کے مقاصد کا پتا چلتا ہے کہ وہ زندگی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔اﷲ رب العزت نے تما م انسانوں کو سال کے 365دن اور 12 مہینوں کا عظیم تحفہ یکساں عنایت فرمایا ہے۔ہر انسان کو ہفتے کے سات دن اور ہر دن کے 24گھنٹے ،1440منٹ اور86,400سیکنڈ دستیاب ہیں۔یہ گھڑیاں بعض افراد کو زیادہ اور بعض کو کم کیوں محسوس ہوتی ہیں؟اس سوال کا نہایت ہی آسان اور سہل جواب ہے کہ’’ کسی بھی فرد کی تنظیمی صلاحیت اس کے شخصی شوق و ذوق، ضروریات،سکت و توانائی اور قابلیت کا پر تو ہوتی ہے۔‘‘ تنظیم اوقات سے عاری دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو وقت کو برباد کرتے ہیں اور دوسرے درکار جگہ کے درسست استعمال سے نابلد حضرات۔ طلبہ جب اپنے وقت اور جگہ کے درست استعمال ،تنظیم و ترتیب سے آشنا ہوجاتے ہیں تو ان کی زندگی سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔ہے۔بہتر زندگی میں ترتیب و تنظیم کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں وقت کے ساتھ جگہ کی ترتیب و تنظیم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اکثر طلبہ وقت کی تنظیم و ترتیب کو تو ملحوظ رکھتے ہیں لیکن جگہ کے درست استعمال اور سلیقہ مندی سے خو د کو عاری رکھ کر ذہنی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔جو لوگ بامقصد زندگی گزار نا چاہتے ہیں یقینا ان کی زندگی میں ترتیب و تنظیم پائی جاتی ہے۔تنظیم و ترتیب کوئی عطائی شئے نہیں ہے جس کی ہم صرف آرزو ہی کر سکتے ہیں۔ ترتیب ،تنظیم اور سلیقہ مندی انسان اپنی کوشش ،کاوش اور مسلسل عمل سے حا صل کر سکتا ہے۔امت مسلمہ اپنے عروج کے دور میں جن اچھے اوصاف کی وجہ سے مشہور تھی ان میں زندگی میں تنظیم و ترتیب بھی ایک اہم وصف ہے۔ایک مسلمان طالب علم کے لئے کیا ہر انسان کے لئے نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے ۔بنی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہر کام میں ہم کو تنظیم و ترتیب دیکھنے کو ملتی ہے۔ہرکام کا ایسا نظام الاوقات اور ہر چیز کو ایسی جگہ پر رکھا گیا ہے کہ اس میں کسی تبدیلی کی آج بھی کوئی ضرورتمحسوس نہیں ہوتی ۔ہر طالب علم کے لئے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کاادراک ضروری ہے ۔جب طلبہ اپنی صلاحیتوں سے واقف ہوجاتے ہیں تو ان کو نکھارنے اور پروان چڑھانے کے لئے ایک منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو موثر اور بہتر بنا سکیں۔منصوبہ بندی کے ذریعہ ایک مصروف آدمی بھی ہمیشہ فارغ رہ سکتا ہے بقول بل کلنٹن سابق صدر امریکہ ’’ایک مصروف آدمی کو ہمیشہ فرصت حاصل رہتی ہے۔‘‘میر ے پاس وقت نہیں ہے۔رکھی ہوئی چیز مجھے نہیں مل رہے ہے یہ ایک معذور ذہن کے حامل افراد کے بہانے ہوتے ہیں۔فورڈ کار کے موجد و مالک ہنری فورڈ کے مطابق ’’اگر نظام الاوقا ت کی مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو اتنی وقت میں دگنا کام کرتے ہوئے ہم دباؤ اور تناؤ سے خو د کو بچا سکتے ہیں۔‘‘امریکہ کے صدر سے لے کر ہماری ریاست کے چیف منسٹر تک سب کو صرف 24گھنٹے ہی دستیاب ہیں۔پھر وہ کیسے تمام امور میں توازن بر قرار رکھ رہے ہیں اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ان کی زندگی میں تنظیم و ترتیب ہر وقت ہر پل دیکھی جاسکتی ہے۔
افراد کو بنیادی طور پر دو قسموں میں ایک ٹائم کنٹرولر(Time Controllers) اور دوسرا اسپیس کنٹرولر(Space Controllers) میں تقسیم کیا گیا ہے۔جان گیرے(John Grey)کے مطابق ٹائم کنٹرولرس کی مزید پانچ قسمیں پائی جاتی ہیں۔
کلف ہینگرس(Cliff Hangers)تساہل پسند لوگ:
تساہل پسندی کے شکار افراداکثر فیصلہ سازی کے عمل میں تاخیر کے عادی ہوتے ہیں یا پھر لمحہ آخر تک کسی کام کو ٹالنے یا موخر کرتے ہیں۔یہ لوگ جب تک ان پر کوئی بیرونی دباؤ اثر انداز نہیں ہوتا ،کام کی طرف مائل یا راغب نہیں ہوتے ہیں۔تساہل اور ٹال مٹول کرنے والے ایسے اشخاص کو کلف ہینگر س کہا جاتا ہے۔یہ لوگ تخمینہ سازی ،موازنہ اور اوقات کی تنظیم میں بہت ہی کمزور واقع ہوتے ہیں۔ٹال مٹول کی کیفیت کے عادی طلبہ کیلنڈریعنی انجام دینے والی سرگرمیوں کی ایک جامع فہرست کی تیاری (تقویم سازی) اور مصنوعی دباؤ پیدا کرنے کی عادات کو اپنا کر اپنی تساہل پسندی پر قابو پاسکتے ہیں ۔ مصنوعی دباؤ کی پیدائش سے مراد دلچسپ سرگرمی یا کام کو کسی اہم کام کے بعد اہمیت یا ترجیح دینا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ایک طالب علم کو رات میں چند کام انجام دینے ہیں جیسے
اپنے دوست سے گفتگو کرنا
آدھے گھنٹے کے لئے ٹیلی ویژن دیکھنا
رات کا کھانا کھانا
سونے سے قبل ایک گھنٹے تک اپنے اسکول یا کالج کے نوٹس لکھنا۔
اگر آپ تساہل پسندی (کلف ہینگر)کے شکار ہیں تب آپ رات کے کھانے پر نوٹس لکھنے کو ترجیح دیں تاکہ کھانے کے بعد آپ کی تساہل پسندی عود کر آپ کو پڑھنے اور لکھنے سے باز نہ رکھے۔
کمالیت پسندی کا شکار اشخاص(Perfectionists)
کمالیت پسندی کے مرض کا شکار افراد کسی بھی کام کو بہتر سے بہتر کرنے کی دھن میں اس کی جزئیات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے اکثر اپنے کام کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچا پاتے ہیں اور ان کا کام ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔اس کیفیت کے حامل افراد کو کمالیت پسندی کے فریب میں گرفتاراشخاص (Perfectionists) کے نام سے معنون کیاگیا ہے۔عمومی طور پر یہ لوگ نہیں سمجھ پاتے کہ ان کی اوسط کارکردگی بھی لوگوں کو بہتر طور پر قبول ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ عدم قبولیت کے وہم میں گرفتا ر رہتے ہیں۔ یہ اکثر کم ہمتی اور پست حوصلے کے حامل ہوتے ہیں۔اگر آپ کمالیت پسندی کے فریب کا شکار ہیں تو لازمی ہے کہ آپ اہم اور ضروری کاموں کی ترجیحات کے مابین تمیز کی صلاحیت پیدا کر یں تاکہ معمولی قسم کے کاموں میں اپنے معیار کو کم کر تے ہوئے کام کوپائے تکمیل تک پہنچا سکیں۔کمالیت پسندی کے مرض کی وجہ سے اکثر کام تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ایسی بیکار اور فضول قسم کی کمالیت پسندی سے اجتنا ب بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔امتحان کے وقت کمالیت پسندی کے اسی مرض کی بناء طلبہ ایک ہی سوال پر اتنا وقت صرف کردیتے ہیں کہ دیگر سوالات کے جوابات تحریر کرنے کے لئے وقت کی تنگی ہوجاتی ہے۔سوال کی اہمیت اور نشانات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر طلبہ جواب تحریر کریں گے توانھیں وقت کی تنگی کا شکوہ نہیں ہوگا۔کمالیت پسندی کے فریب میں ملوث افراد معیار کو بنیاد بنا کر کوئی بھی کام انجام دینے سے احتراز کرنے لگتے ہیں۔کام کو لگا تار اور مسلسل کرتے رہنے سے اس میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ابتدائی مراحل میں ہی اگر معیار کو بنیاد بنا کر طلبہ کام سے فرار حاصل کرنے لگ جائیں تب ناکامی ان کا مقدر بن جائے گی۔
اچھلو قسم کے طلبہ(Skippers)
اچھلو قسم کے طلبہ اکثر منصوبہ سازی میں پیش پیش اور عمل میں پیچھے رہتے ہیں۔وہ بڑے مقاصدکے تعاقب میں لگے رہتے ہیں اور مجموعی طور پر مسائل کو بہتر طور پر حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن بے صبر ی ان کے مزاج کا ایک اہم عنصر ہوتی ہے۔ایک طالب علم جو اپنے امتحان کے جوابی بیاض کو لوٹانے سے پہلے اس کی جانچ نہیں کر تاوہ بھی اچھلو(Skipper)کہلاتا ہے۔ خوش فہمی کی وجہ سے تفصیلات کو معمولی جان کر طلبہ جب روگردانی کر تے ہیں تب کئی تشویشناک پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔اس تبا ہ کن عادت سے چھٹکار ا حاصل کرنے کے لئے طلبہ اپنی روز مرہ زندگی میں انجام د ی جانے والی سرگرمیوں کی ایک فہرست کو تیار کرتے ہوئے اور اس کی جانچ و تنقیح کے ذریعہ اپنے ہر فعل کی اصلاح کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
تماشہ بین (Fence Sitter)
فیصلہ سازی میں ٹال مٹول سے کام لینے یا پھر مسائل کے مثالی حل کے متلاشی عادت کے حامل افرادکوئی فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں ان کو تماشہ بین (Fence Sitters) کہا جاتا ہے۔غلط فیصلہ سازی کے خوف سے یہ کوئی فیصلہ ہی نہیں لے پاتے ہیں۔ایک تما شہ بین فطرت کا حامل فرد اپنی کامیابی پراپنے دوستوں کے لئے ایک دعوت (پارٹی) کا اہتمام کرنا چاہتا ہے لیکن دعوت کو ملتوی کر دیتا ہے کیونکہ کبھی اس نے دعوت کا اہتمام ہی نہیں کیا ہے۔ریاضی (Mathematics)،کیمیاء(Chemistry)،طبعیات(Physics)یا کوئی اور مضمون کو مشکل سمجھ کر اس کو نہ پڑھنا طلبہ کی مشکلات کو اور بڑھا دیتا ہے۔جب کسی مشکل کا آپ کو اندازہ ہوجائے تب اس کو آسان بنا نے کی آپ کو سعی و کوشش کرنے چاہئیے نہ کہ مشکل سے دامن بچانے کے لئے میدان عمل سے ہی راہ فرار اختیار کر لی جائے ۔یہ کمزورں اور بزدلوں کا شیوہ ہوتا ہے۔تماشہ بینی کی کیفیت سے دوچار طلبہ کسی بھی کام کو شروع کرنے اور آگے بڑھانے کے فن سے نا بلد ہوتے ہیں۔والدین اور اساتذہ کو ایسے مرحلوں میں اپنی رہنمائی کے فرائض اتم طور پر انجام دینے ہوتے ہیں۔طلبہ ایسے مرحلے میں کام کو مختصر کرتے ہوئے ، متبادلات کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے، ترجیحا درجہ بندی کرتے ہوئے اور کام کی تکمیل کے لئے ایک حتمی تاریخ مقرر کرتے ہوئے اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
Hoppers
بیک وقت کئی کام انجام دینے کی کوشش میں سبھی کاموں کو نا تمام ہی چھوڑ دینے والے افراد کو Hoppers کہا جاتا ہے۔یہ جلد باز ی اور تنوع سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ بہت جلد مطمین و مسرور ہوجاتے ہیں۔ اپنی بھر پور توانائی استعمال کرتے ہوئے یہ نہ صرف خو د کو فعال رکھتے ہیں بلکہ بیک وقت کئی منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہچانے کااشتیاق بھی رکھتے ہیں۔لیکن اس فطرت کے حامل اکثر افراد خود کے یقین و اعتماد پر کامل نہیں اتر پاتے ہیں۔اگر ایک طالب علم اپنے میں جب اس کیفیت کو محسوس کرتا ہے جو اس کی پڑھائی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہوتی ہے تب وہ اپنے افعال و اعمال کی بہتری کے لئے خصوصی منصوبہ بندی کر ے اور اسمارٹ(SMART) کے اصول کو اپنائیں۔یعنی مقاصد =Specific S مخصوص ہوں عمومی بالکل نہ ہوں۔ مقاصدM=Measurableیعنی قابل پیمائش ہوں،مقاصدA=Attainable قابل حصول و قابل عمل ہوں،مقاصد R=Realisticیعنی حقیقی ہوں اتنے چھوٹے بھی نہ ہوں کہ آپ کو تحریک بھی نہ دے سکیں اور اتنے بڑے بھی نہیں کہ آپ کے متعین کردہ وقت میں ان کو حاصل کرنا ناممکن ہو۔مقاصد T=Timeboundیعنی ان کی مدت معین ہوں۔بڑے کام کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کرتے ہوئے اور ہر چھوٹے ہدف کے لئے ایک وقت مقرر کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی جانب طلبہ رواں دواں رہ سکتے ہیں۔طلبہ کے اس عمل کی وجہ سے ان کو اپنے محاسبے کی عادت پڑجائے گی۔خود احتسابی ایک عظیم دولت ہوتی ہے اور جو اس سے متصف ہوجاتا ہے اس پر قدر ت مہربان ہوجاتی ہے اور اس پر علم ودولت کے خزانے لٹا دیتی ہے۔مذکور ہ پانچ شخصیات کی خصلتوں کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بہت زیادہ فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ان پانچ شخصیتوں میں پائی جانے والی خصلتیں مختلف تناسب اور مختلف حالات میں ہر ایک انسان اور طالب علم میں پائی جاتی ہیں۔تعین کردہ مقاصداورمقاصد تک رسائی ،مقاصد کے حصول میں کن امور پر قابو پانا اور کن امور کو آزادی فراہم کرنا،کب اور کہاں آرام کرنا اور کسیے مقصد کے حصول میں تندہی سے لگے رہنا ان تمام خصلتوں سے آگہی پیدا کرتے ہوئے طلبہ اپنے علمی سفر کو آسان اور پر کیف بنا سکتے ہیں۔
اسپیس کنٹرولر(Space Controllers)
ٹائم کنٹرول خصلت پر سیر حاصل گفتگو کے بعد اب اسپیس کنٹرول پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے ۔جب کوئی انسان کسی خا ص اور اہم کام کی انجام دہی میں منہمک ہوجاتا ہے تب افراتفری اور تنظیم و ترتیب سے پر ماحول کا پایا جانا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی ہم ہر شئے کو اس کے مقام پر رکھ سکتے ہیں۔جسے اسپیس کنٹرولنگ یعنی ترتیب اشیاء کہاجاتا ہے۔اسپیس کنٹرولر بھی پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔(1)ذخیرہ اندوز (Dumpers)یہ لوگ اپنی میز پر ہر چیز کو سجاکر خوش ہوجاتے ہیں کہ وہ اتنے سارے کام انجام دے رہے ہیں۔اس خصلت کے طلبہ سوچتے ہیں کہ چلو آج کام کو اکھٹاکرلیتے ہیں اور کام کی اشیاء نوٹس کتابوں اور دیگر دستاویزات کو بنا کسی احیتاط اور ترتیب کے یہاں وہاں اہم کاغذات کو کتابوں کے اندر رکھ دیتے ہیں۔ کام کے وقت اشیاء کی تلاش میں اپنا قیمتی وقت تباہ کردیتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی کے شائق طلبہ میں جگہ کی ترتیب اور تنظیم کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ضرورت کی وقت بہت ہی پریشان اور الجھن میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔والدین بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اشیاء کی ترتیب ،درجہ بندی ، اشیاء کو اٹھا کر رکھنے اور وقت ضرورت بغیر کسی الجھن کے ان کو حاصل کرنے کی سلیقہ مندی جیسے اپنے اسکولی جوتے، موزوں،اسکول بیاگ ،پین ،پنسل اور دیگر اشیاء کو سلیقہ مندی اور ترتیب سے رکھنے اور ان کو بغیر کسی الجھن اور وقت کی بربادی کے حاصل کرنے کی تربیت کا اہتمام کریں۔(2)کلین ڈسک(Clean Desk)کلین ڈسک سے مراد ہر شئے کو ترتیب اور سلیقہ مندی سے رکھنے والے طلبہ ہوتے ہیں۔اپنی زندگی میں سلیقہ مندی اور ترتیب کی وجہ سے ان کاکام او ر کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔یہ ہر شئے کوریکارذکرنے کے عادی ہوتے ہیں۔کلین ڈسک خصلت کے حامل افراد سختی سے روزانہ کام کی منصوبہ بندی کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔جب انسان اپنے روز مرہ کے افعال کی انجا م دہی کی منصوبہ بندی نہیں کرتا ہے تب وہ ذہنی الجھن و خلفشار کا شکار ہوکر اپنے معلنہ کام کی انجا م دہی میں ناکام ہوجاتا ہے۔(3)درست زاویہ نگا ہ کے حامل افراد(Right Anglers)جب تک یہ اشیا ء کو سلیقہ مندی سے رکھتے ہیں تب تک ان کو کسی بھی طرح کی افراتفری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔یہ لوگ صفائی اور ترتیب کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ہر شئے پر قابو اوراس کو درست رکھتے ہوئے کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں۔ آدمی سلیقہ مندی اور درجہ بندی کو اس حد تک نہ سوار کر لیں کہ کو ئی کام ہی آگے نہ بڑھنے پائے۔جب تک معمولی نظم(orthodox management)سے کام چلتا ہے اس سے کام لیتے رہیں۔ افراتفری اور بے ترتیب سے بچاؤ کے لئے سختی سے ان عادات کو تج دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس زمرے کے طلبہ اکثر بڑے کام انجام دینے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ وہ اس کو ایک ہی نشست میں مکمل نہیں کر سکتے ہیں۔اسی لئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہر بڑے کام کوآسان بنانے کے لئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹتے ہوئے انجام دیں تاکہ باآسانی کام کی تکمیل کو ممکن بنایا جاسکے۔(4) خول خود فریبی میں محروس افراد(پیاک ریاٹس)(Pack Rats) ؛جو شخص اپنی زندگی میں ترتیب و تنظیم کی کوئی سعی نہیں کر تا اور سمجھتا ہے کہ اس کی مراد کبھی نہ کبھی ضرور پوری ہوگی ایسے افراد کو پیاک ریاٹس کہا جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے دسترس میں واقع اشیاء کے بارے میں بہت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے غیر ضروری اشیاء کو بھی ایک خزانے سے کم نہیں سمجھتے ہیں۔کونسی شئے کو رکھا جائے اور کس کو پھینک دیا جائے یہ اس بات کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ایسی خصلت کے حامل طلبہ کو چاہیئے کہ وہ غیر ضروری اشیاء سے مفت یا معمولی قیمت پر دستبردار ہوجائیں۔طلبہ جگہ اور آرام کی اہمیت و افادیت کوملحوظ رکھیں۔(5)بد سلیقہ اشخاص(Total Slobs) یہ بھی ریاٹ پیاک افراد کی طر ح ہی ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک فرق پایا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی شئے کو بغیر کسی ارادے اور مقصد کے ذخیرہ کرتے رہتے ہیں۔اپنی دسترس میں موجود اشیاء کی قدر و قیمت سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی فضول اشیاء سے یہ چھٹکارا حا صل کر نے کاکوئی ارادہ کرتے ہیں۔یہ اپنی زندگی اور اشیا ء میں تنظیم و ترتیب سے نفرت کرتے ہیں۔بچوں میں دراصل یہ رجحان ماں باپ کی جانب سے خراب تربیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔یہ غیر حا ضردماغ،چڑچڑے اور جلد آپے سے باہر ہونے اور افسردہ رہنے والے افراد ہوتے ہیں۔طلبہ اس کیفیت سے اپنی زندگی میں بتدریج تبدیلی اور تنظیم و ترتیب کو جگہ دیتے ہوئے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔مثلا اپنے کپڑوں اور دیگر اشیاء کو ادھر ادھر نہ پھینکیں اور ان کو ایک جگہ رکھتے ہوئے اپنے زندگی میں ترتیب و تنظیم کو پیدا کرنے کو کوشش کر یں۔
اب طلبہ کو خو د فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کونسے معیار زندگی کو اپنائیں گے۔اپنی جگہ کو صاف اور ترتیب و تنظیم سے رکھنا آپ کی شخصیت کی غمازی کرتا ہے۔آپ کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں ،اور چاہی جانے والی شئے تک آپ کیسے پہنچ پائیں گے اور نہ بھی پہنچ پائیں تب آپ کیا کر یں گے۔انیسویں صدی کا ایک معروف شاعر فلسفی گوئٹے(Goethe) کہاتا ہے کہ “Things which matter most must never be at the mercy of things that matter least”(جو چیزیں نہایت اہم ہوتی ہے ان کو غیر اہم چیزوں کے رحم و کرم پر کبھی نہیں چھوڑا جاسکتا )اور جو اس بات کو اپنے زندگی کا جزو بنا لیتے ہیں وہی زندگی ترتیب و تنظیم والی زندگی کہلاتی ہے۔طلبہ اگر زمانہ طالب علمی سے وقت کی تنظیم اور جگہ کی ترتیب کی اہمیت کو ملحوظ رکھیں تو یقینی طور پر وہ مستقبل میں ایک کامیاب اور ذمے دار شہری بن سکتے ہیں۔تنظیم و تربیت کے ذریعے ہم اپنی زندگی کو الجھنوں اور پریشانیوں سے پاک کر سکتے ہیں۔تنظیم و ترتیب کے ذریعہ نہ صرف طلبہ اپنی ذات کے لئے مفید ہوجائیں گے بلکہ یہ چیز قوم و ملت کے لئے ایک بہترین خدمت بھی ہوگی۔معروف فلسفی افلاطون کا قول نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔’’وقت ایک ایسی زمین ہے جس میں محنت کیے بغیر کچھ پیدا نہیں ہوتا ۔اگر محنت کی جائے تو زمین پھل دیتی ہے اور اگر بے کار چھوڑ دی جائے تو اس میں صرف خاردار جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے کرنے کے کام میں سو فیصد کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اس بات سے ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ ترجیحات کا علم تو ایسے وقت پر ہی کار آمد ہوتا ہے ۔اہمیت کے لحاظ سے کام کو ترجیح دیں اور اسے انجام دیں۔معاملات اور معمولات میں ہر حال میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بشیر جمعہ نے اپنی کتاب شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر میں شیر شاہ سوری کا ایک بہت ہی پیارا قول نقل کیا ہے میں اپنے مضمون کو اسی قو ل پر ختم کرتے ہوئے آپ کو فکر و عمل کی دعوت دیتا ہوں’’بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا سارا وقت ضروری کاموں میں صرف کرے۔‘‘
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...