گھر کے قصائی اب کہاں۔۔سیف اللہ خان

عید قرباں قریب  آتے ہی قصائی کی تلاش شروع  ہوجاتی ہے۔۔ عمر کا تقاضا ہے ورنہ جوانی میں چار پانچ دوست مل کر اپنے گھروں کی ایک دو گائے ایسے ہی گرالیتے تھے۔۔ دوپہر میں بھنی کلیجی اور اس کا سالن کھاتے تو سارے دن کی محنت وصول ہوجاتی۔۔ اچھی طرح یاد ہے دو عیدیں تو ایسی گزریں کہ دوستوں کے گھر پہنچے تو قصائی طے شدہ وقت پر غائب تھے۔۔ مشکل سے پکڑ کر لائے تو انڈے گندے نکلے، مل ملا کر بچھڑے گرائے اور گوشت بنانے بیٹھ گئے۔۔ ساتھ ساتھ بڑے بوڑھوں کے مشورے چلتے رہے۔ ڈھائی تین بجے تک ہم پانچ چھ لوگوں نے سارا کام نمٹادیا تھا۔

یہ ایک ہمارا واقعہ نہیں۔۔ گلی محلے میں پہلے گائے بیل گرتا تھا تو ایک ایک جانور پر دس سے پندرہ افراد جھکے ہوتے تھے۔۔ جو سب سے ہلکا ہوتا اسے دم پکڑادی جاتی کہ کَس کر پکڑنا، چھوڑ نہ دینا۔۔۔ کسی کو کچھ نہ ملتا تو گری گائے پر بیٹھ کر سکھ کا سانس لیتا، کیوں کہ یہ موقع بھی نکل جاتا تو عید کے بعد محلے والوں کو کیا منہ دکھاتا۔ ایک جانور ذبح کرنے کے بعد نوجوانوں کا ٹولہ دوسرے، پھر تیسرے چوتھے جانور تک جاتا۔۔ جہاں لوگوں کی کمی ہوتی وہاں خدمات پیش کی جاتیں۔ جسے ان سب چیزوں کا شوق نہ ہوتا وہ بھی عید کا نیا جوڑا اتارکر پرانی جینز اور شرٹ پہن کر نکل آتا کہ جانور گرانا نہیں تو گرتے دیکھنے کا شوق ہی پورا کرلیں۔

لیکن اب وہ دن کہاں؟ آج کل کے نوجوان ٹیکنولوجی کی کُند چھری تلے خود ذبح ہونا پسند کرتے ہیں۔۔ ایک ہاتھ میں اسمارٹ فون دوسری سے پتلون پکڑنا مجبوری ہے ۔۔۔ ایسے میں گائے کو گرانے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔ عید قرباں کی نماز کے بعد بھی نیا جوڑا پہنے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ بعض نوجوان تو نفاست و نزاکت کا پتلا ہوتے ہیں کہ تازہ تازہ گوشت کا ڈھیر دیکھ کر ہی کھایا پیا سب اُلٹ دیں۔۔ گھر والے کہتے رہ جائیں کہ فلاں کے ہاں حصہ دے آ۔۔۔ لیکن مسکین صورت بنائے ایک ہی عذر پیش کرتے ہیں کہ “ہم سے نہیں ہوگا”۔

ایسے میں لوگ قصائی کے لیے مارے مارے نہ پھریں تو اور کیا کریں۔۔ موسمی قصائیوں کے کارنامے مشہور ہونے کے بعد خاندانی قصائیوں کے نخرے کچھ زیادہ ہی ہوجاتے ہیں ۔ذی الحجہ شروع ہونے سے پہلے ہی وہ کھڑکی توڑ بکنگ کا بہانہ بناکر  ہاوس فل کا بورڈ لگادیتے ہیں ۔ ایسے میں منہ مانگے دام دینے والے گاہک کا نام فہرست کے آخری سرے پر لکھا جاتا ہے اور واضح کردیا جاتا ہے کہ بارہ ایک بجے سے پہلے کی امید نہ لگانا۔ زمانے کے ٹھکرائے  مجبوراً ہر شرط ماننے کو تیار ہوجاتے ہیں۔۔

اس صورت حال  کو دیکھتے ہوئے بعض مقامات پر خیرخواہ اجتماعی قربانی کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ جانور ذبح کرانے کا انتظام بھی کرنے لگے ہیں ۔ جہاں قصائیوں کی دو تین ٹیمیں ایک ساتھ پندرہ سے بیس جانور گرارہی ہوتی ہیں ۔۔ اُن کے ریٹ بھی مناسب ہوتے ہیں ، کام مرضی کے عین مطابق نہیں ہوتا لیکن ایسا ضرور ہوتا ہے کہ گھر جاکر گوشت سنبھالا جاسک

حصہ

جواب چھوڑ دیں