ادب اورتاریخی شعور۔۔۔سلیم احمد

ممتاز نقاد اور شاعر سلیم احمد مرحوم کا ایک غیر مطبوعہ مضمون۔۔

زندگی میں دو اصول کام کرتے ہیں۔ایک اصول ثبات کا دوسرا اصول تغیر کا۔ ایک اصول سکون کا دوسرا اصول حرکت کا جس طرح
حرکت اور تغیر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ تاریخ کا تعلق اصول حرکت سے ہے کیونکہ تاریخ داں کہتے ہیں کسی شے کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کی روئداد کو شے جس طرح کچھ بنتی یا بگڑتی ہے وہ اس کی تاریخ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو چیزیں اصول ثبات سے تعلق رکھتی ہیں ان کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی ہے۔وہ چونکہ ’’ہوتے رہتے‘‘ کے عمل میں گرفتارنہیں ہوتیں اس لیے غیر تاریخی ہوتی ہیں۔ اب جب ہم ادب میں تاریخی شعور کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ادب میں اس چیز کا شعور ہوتا ہے جو بدلتی رہتی ہے۔ ادب دو چیزوں کا مجموعہ ہے مواد اور ہیٔت ۔ مواد سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ادیب کو زندگی کے تجربے، مشاہدہ اور مطالعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ مواد حقیقی ہو یا خیالی‘ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اس لیے اس کی ایک تاریخ ہوتی ہے اس کے برعکس مواد کے مقابلے پر ہیئت اصول ثبات کی نمائندگی کرتی ہی اور مواد کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے وہ مواد کے مقابلے پر غیر تاریخی یا کم تاریخی ہوتی ہے۔ چنانچہ تاریخی شعور کا تعلق ادب کے مواد سے ہے، تاریخی شعو ر کے معنی یہ ہیں کہ ہم یہ جانیں کہ ہمارا مواد ماضی میں کیا تھا اوراب کیا ہے اور ان دونوں کے درمیان کیا تعلق ہے۔ تاریخی شعور ایک طرف لمحہ موجود کا شعور ہے۔ دوسری طرف لمحہ گزشتہ کا اور تیسری طرف ان کے تعلق اور تسلسل کا۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم ہمارا ماحول اور ہمارا معاشرہ کیا تھا اور آج کیا ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کیا رشتہ ہے۔ ادب میں جب تک ہم یہ تاریخی شعور حاصل نہیں کرتے ہمارا شعور یک رخا رہتا ہے یا تو ہم ماضی میں گھرے رہ جاتے ہیں اور ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم ہمارا ماحول اور ہمارا تجربہ یعنی ہمارامواد کتنا بدل گیا ہے یا پھر ہم حال میں اسیر ہوجاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس حال کے پیچھے ہمارا ماضی کس طرح برسرِ عمل ہے۔ بالفرض ہم اگر انھیں الگ الگ دیکھ بھی لیں تو ہمیں ان کے تسلسل کا شعور نہیں حاصل ہوتا۔ ہمارے ادب میں قدیم و جدید کے جتنے تنازعے موجود ہیں اور اس سلسلے میں جتنی غلط فکری پائی جاتی ہے وہ اسی تاریخی شعور کے نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ یا تو ہم صرف حال کو دیکھتے ہیں اور ماضی کو نہیں دیکھ سکتے یا صرف

ماضی کو دیکھتے ہیں اور حال کو نہیں دیکھ سکتے یا اگر ان دونوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے رشتے کو نہیں دیکھ پاتے۔

آیئے اس اصولی بحث کے بعد یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ ہمارے اپنے زمانے کے حوالہ سے ہمارا تاریخی شعور ہمیں کیا بتاتا ہے۔

ہمارے زمانے کی ایک بہت بڑی تبدیلی جو غالباً معلوم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی ہے وہ مغرب میں نشاۃ الثانیہ کا ظہور ہے۔ اس تبدیلی نے نہ صرف مغرب کو بلکہ پوری دنیا کو ایک سرے سے بدل کر رکھ دیا۔ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم اس تبدیلی کے نقطہ آغاز سے آج تک اس کے سفر کو تفصیل سے بیان کرسکیں۔ لیکن تحریکِ احیاے علوم‘ تحریکِ اصلاح‘ انقلابِ فرانس‘ صنعتی انقلاب اس کی بڑی بڑی منزلیں ہیں۔ ان تبدیلیوں نے پہلے مغرب میں ظہور کیا اور اس کے بعد وہ مغربی اقوام کے ذریعہ دنیا کے دوسرے خطوں اور علاقوں میں پھیلیں جس کے نتیجے کے طور پر مشرق و مغرب میں معاشرت‘ معیشت‘ سیاست ‘ گھریلو زندگی اور ان سب کے پیچھے انسانی نفسیات میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ ہمارا معاشرہ صدیوں سے جن روایات پر قائم تھا برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد وہ بدلنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ ایک ایسے سفر کی طرف بڑھنے لگاجس کی منزل نامعلوم ہے۔

تاریخی شعور کے معنی یہ ہیں کہ ہم یہ جانیں کہ ہمارے معاشرے میں تبدیلیوں کا یہ سفر کن منزلوں سے گزررہا ہے اور اب ہم کہاں کھڑے ہوئے ہیں۔

برصغیر میں ہمارے معاشرہ اور ہمارے شعور میں جو بڑی تبدیلیاں پیدا ہوئیں ان کی نمائندگی تین بڑی تحریکیں کرتی ہیں۔ اس تبدیلی کا سب سے پہلا اظہار سرسید کی تحریک میں ملتا ہے۔ دوسری بڑی تبدیلی ۳۶ء کی تحریک میں ظاہر ہوئی اور تیسری بڑی تبدیلی ابھی اپنی تشکیل پذیری کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے۔ میرا اشارہ اس تحریک کی طرف ہے جسے محمد حسن عسکری کے حوالہ سے مشرق کی بازیافت کہا جاتا ہے۔سرسید تحریک مغرب کی دریافت سے شروع ہوئی تھی۔ مغرب سرسید تحریک کا امریکا تھا۔ سرسید تحریک کا کل خلاصہ یہ ہے کہ مشرق انحطاط اور جمود کی حالت میں اور مغرب ترقی اور عروج کا علمبردار ہے۔ اس لیے مشرق کی نجات مغرب کی پیروی میں ہے۔ مشرق کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغرب کو اپنے اندر جذب کرے اور جس حد تک ممکن ہو مغرب کے رنگ میں رنگتا چلاجائے۔ ہم جتنے مغربی بنیں گے اتنے ہی ترقی سے ہمکنار ہوں گے۔ سرسید تحریک کے اس منشورنے ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ہم نے مغربیت کو اختیار کرنا شروع کیا۔ روایتی تصورات‘ ادارے اور معاشرے کے مجموعی ڈھانچے میں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور بالآخر ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا جس کی پوری ذہنیت مغربی تھی۔ یہ درست ہے کہ اس تحریک کو زندگی اور ادب دونوں میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی میں سب سے بڑی مزاحمت علماء کی طرف سے ہوئی اور ادب میں اکبر الہ آبادی اور ان کے ہمنوا اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ یہ آواز اقبال کی آواز سے مل کر ایک بڑی آواز بن گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ادب کا بڑا دھارا اکبر اور اقبال دونوں کے اثرات سے آزاد مغرب ہی کی طرف بڑھتا رہا۔ ۳۶ء کی تحریک مغربی شعور کی ایک بہت بڑی فتح تھی۔ اس نے ہمارے پورے ادب کو متاثر کیا اور مغرب معاشرہ کی جڑوں اور تہوں تک پہنچ گیا۔ مغرب کے اثرسے حیات و کائنات کے نئے نظریات ہمارے اندر اثر و نفوذ کرگئے اور ہم ان تمام حقائق کی ایک نئی تعبیر کرنے لگے جو پہلے مغرب سے ایک بالکل مختلف بنیاد پر قائم تھے۔ یہاں تک کہ خود مذہبی شعور میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور مذہب کی نئی تعبیروں کی داغ بیل پڑی۔ اقبال خود بھی بہت حد تک مغرب کے زیراثر تھے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ زندگی میں علماے کرام جس نقطۂ نظر کی حمایت کررہے تھے ادب پر اس کا اثر بہت کم تھا اور غالب رجحان پیرویٔ مغربی ہی کا تھا۔

مشرق میں مغرب کے اثر سے جو تبدیلیاں آرہی تھیں۔ انھیں پوری طرح سمجھنے کے لیے ہمیں ان تبدیلیوں کو سمجھنا پڑے گا جو خود مغرب میں رونما ہورہی تھیں۔ اٹھارویں صدی میں مغرب نے اپنے ماضی کو تقریباً مکمل طور پر مسترد کردیا تھا۔ اب مغرب یہ سمجھنے لگا تھا کہ وہ ایک ایسی منزل پر پہنچ چکا ہے جس کے آگے لامتناہی ارتقاء کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور یہ کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار مغرب نے وہ حقائق دریافت کرلیے ہیں۔ جن تک اس سے پہلے کسی کی رسائی نہیں ہوئی تھی۔ یہ دور مکمل مادیت پرستی کا دور تھا مغرب نے جو سائنس پید اکی تھی وہ ادعائیت کی حد تک اپنے درست ہونے کا یقین رکھتی تھی اور عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اب مغرب کے سوا اور کسی کا چراغ نہیں جلے گا اور جتنی بھی انسانی ترقی ممکن ہوگی وہ مغرب ہی کے زیر اثر ممکن ہوگی۔ اٹھارویں صدی ماضی کی مکمل نفی کی صدی تھی۔ انیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے حالات نے نیا رخ اختیار کرنا شروع کیا اور بہت سے حساس لوگ یہ دیکھنے لگے کہ مغرب جس راہ پر گامزن ہے وہ انسانیت کی نجات کا واحد راستہ نہیں ہے۔ بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے ان رجحانات نے نئی شکلیں اختیار کیں اور بہت بڑے پیمانے پر مغرب پر تنقید ہونے لگی۔ بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ مغربی تہذیب اپنے سارے امکانات ختم کرچکی ہے اور اب زوال اور انحطاط کی منزل میں داخل ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہولناک سوال پیدا ہوا ہے کہ اگر مغربی تہذیب ختم ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والے خلا کو کون پر کرے گا۔ اس سوال نے مغرب کے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ایسے لوگ پیدا ہونے لگے جو مغرب کے طرز احساس کی جگہ ایک نئے طرز احساس کی تلاش میں تھے۔ اس تلاش میں وہ مشرق کی طرف بھی دوڑے۔ بیسویں صدی میں یہ بات عام ہوگئی کہ مغرب کی بے قرار روح اپنی تمام فتوحات کے باوجود اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہے اور یہی وہ مقام تھا جس میں مغرب دوسری تہذیبوں کو مسترد کرنے کے بجائے انھیں دیکھنے اور سمجھنے کے لیے بے قرار نظر آنے لگا۔ مشرق کے بہت سے نظریے مغرب میں مقبول ہونے لگے اور مشرق سے ویدانت‘بدھ ازم کی تعلیمات اور کس حد تک اسلام کے نمائندے مغرب میں توجہ کے مستحق سمجھنے جانے لگے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مغرب میں مشرق کی بازیافت پر بہت قابل توجہ اور وقیع کام ہورہا ہے اور اس بات کے امکانات کا اظہار کیا جانے لگا ہے کہ مشرق کی روشنی میں مغرب اس چیز کو دوبارہ حاصل کرے گاجس کو کھونے کی ابتداء نشاۃ الثانیہ میں ہوئی تھی۔ ہر سال ایسی کتابیں بہت بڑی تعداد میں شائع ہورہی ہیں جو مغرب پر تنقید کے ساتھ ساتھ مشرق کے خیالات کی روشنی میں مغرب کی تشکیلِ جدید کرنا چاہتی ہیں۔

بے محل نہ ہوگا اگر اس موقع پر ہم ایک خالص مغربی تنازعہ کا ذکر بھی کردیں۔یہ تنازعہ مغرب کی روح میں ابتداء سے موجود ہے ہماری مراد مغرب کے ان دو رجحانات سے ہے جسے ہم مادیت اور مثالیت کی اصطلاحوں میں بیان کرتے ہیں۔ مغربی تہذیب نے جب مسیحیت سے اپنا رشتہ توڑا تو اپنے ماضی کو مکمل طورپر رد نہیں کیا۔ اس نے مسیحیت کو تو مسترد کیا مگر کلاسیکی یونانی تہذیب کو اپنے پیش رو کی حیثیت سے قبول کیا۔ یونانی تہذیب میں فکر کی دو بنیادیں موجود تھیں ایک طرف مادہ پرستانہ فکر تھی جو بعض وجوہ سے ترقی نہیں کرسکی تھی اور دوسری طرف وہ مثالی فکر تھی جس کے اہم اجزاء کو مسیحیت نے اپنے اندر جذب کرلیا تھا۔ میتھیوارنلمڈ نے مغربی تہذیب کی روح کی بنیادی کشمکش کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ عبرانیت او ریونانیت کے درمیان جھولا جھول رہی ہے۔ مغرب میں نشاۃ الثانیہ کے بعد عبرانیت کمزور پڑتی چلی گئی اور یونانیت کو ترقی ہوتی گئی لیکن یونانیت میں خود ایک تضاد موجود تھا جسے مغرب حل نہیں کرسکا۔ یہی یونانی فکر کا تضاد موجودہ مغرب کے اندر بہت گہرا نظر آتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب مادیت اور مثالیت کے درمیان کوئی حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فکر کے غالب رجحان کو دیکھئے تو اشراکیت اپنا رشتہ یونان کی مادہ پرست فکر سے جوڑتی ہے اور اس کے مقابلہ پر غیر اشتراکی فکر غالب طور پر مثالیت پرست ہے۔ مادیت اور مثالیت کی یہ کشمکش مغرب میں دو نظام ہائے حیات کی بنیاد بن گئی ہے۔ ایک کی نمائندگی اشتراکی ممالک کرتے ہیں اور دوسرے کی نمائندگی مغربی ممالک۔ غور سے دیکھا جائے تو مغرب کے اثر سے یہ کشمکش ہمارے اندر بھی پیدا ہوئی ہے۔ دراصل یہی وہ کشمکش تھی جس نے ۳۶ء کی تحریک کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور ترقی پسند ادب اور نئے ادب کا فرق رونما ہوا ہم اگر اپنے ادبی رجحانات کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ترقی پسند ادب کے زوال کے ساتھ ہمارا تاریخی شعور مثالیت پرستی کی طرف زیادہ بڑھا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ محمد حسن عسکری کی فکر کس طرح لمحہ موجود میں ہمارے لیے معنی خیز بنتی ہے۔ محمد حسن عسکری کا کہنا ہے کہ مغرب پوری انسانی تاریخ میں ایک ایسا تجربہ تھا جو اپنے وقت پر ناگزیر ہونے کے باوجود کوئی قائم رہنے والی چیز نہیں تھا۔ مغرب اپنے سارے امکانات کو ظاہر کرنے کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس نے انسانیت کو جو کچھ دیا ہے وہ اس سے کہیں کم ہے جو اس نے انسانیت سے چھینا ہے اور مغرب کو خود یہ احساس ہوگیا ہے کہ وہ نشاۃ الثانیہ کے بعد ایک غلط راستے پر چل پڑا تھا۔ اس حالت میں ضروری ہے کہ ہم مغرب کو پوری طرح سمجھیں اور اس کے مقابلہ پر اس ماضی کو ازسرنو دریافت کریں جسے مغرب نے مسترد کردیا تھا۔دوسرے لفظوں میں پوری انسانیت کا تاریخی شعور ہمیں بتارہا ہے کہ ہم ایک بہت بڑی تبدیلی کے دروازہ پر کھڑے ہوئے ہیں اور یہ تبدیلی اتنی بڑی ہوگی جس کا تصوربھی آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ عسکری کے نزدیک اس تبدیلی کا سب سے بڑا مظہر یہ ہوگا کہ مغرب اپنی غیر روایتی فکر کو مسترد کرکے اس نئے راستے پر بڑھے گا جہاں ہمارا رخ نشاۃ الثانیہ کے مغرب سے بالکل مخالف سمت میں ہوگا۔

یہ الفاظ لکھتے وقت مجھے احساس ہے کہ ہم جس تبدیلی کا ذکر کررہے ہیں وہ ابھی ہمارے یہاں موج تہہ نشیں کی حیثیت ہی رکھتی ہے اور اسے ابھی سطح آب تک آنے میں دیر لگے گی لیکن اگر ہم نے اپنے تاریخی مقام کا صحیح تجزیہ کیا ہے تو ہم سمجھ سکیں گے کہ یہ موج تہ نشین ہی مستقبل میں ادب کی سب سے بڑی موج بنے گی۔ ہمارے زمانے میں تاریخی شعور کا مطلب اس سارے پس منظر کو سمجھنا اور کھلی آنکھوں سے اسے دیکھنا۔ لیجیے اس بحث میں ثبات اور تغیر کا مسئلہ تو رہ ہی گیا۔ اصل میں مغرب میں جو کچھ ہوا وہ ثبات اور تغیر کے توازن کے بگڑنے کی ایک داستان ہے۔ مشرق کی تہذیبیں ثبات اور تغیر کے ایک توازن پر قائم تھیں۔ یہاں تبدیلی کے اصول کو تسلیم کیا جاتا تھا لیکن یہ تبدیلی ثبات کی تابع تھی جس کے معنی یہ ہیں کہ تبدیلی چند اصولوں کے تحت ہوئی تھی اور حرکت زمانی ادبیت سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کرتی تھی لیکن مغرب میں حرکت و تغیر کو ہی سب کچھ سمجھا جانے لگا اور اصول ثبات کو یکسر نظرا نداز کیا گیا۔ چنانچہ مغرب کے زیر اثر جو تبدیلیاں ہمارے یہاں پیدا ہوئیں ان میں بھی تغیرہی پر زور دیا جانے لگا۔ ادب میں مواد تو ہمیشہ بدلتا رہتا تھا لیکن اس مواد کو تشکیل دینے والے اصول ہمیشہ قائم ودوائم رہتے تھے۔ مغرب کے آنے کے بعد مواد کی تبدیلی اصولوں سے آزاد ہوگئی اب مواد میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں انھوں نے ادب میں اصول ثبات یعنی ہیٔت کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا اور ہیئت کی شکست و ریخت کے بعد کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی جو ادب کو انارکی سے بچاسکے۔ ہم لمحۂ موجود میں اسی انارکی کا شکار ہیں۔ مواد اور ہیئت سب اپنی جگہیں چھوڑ رہے ہیں اور اپنی انتہا پسندانہ شکلوں میں ایک دیوانے کے خواب کی شکل اختیار کرنے جارہے ہیں یہ تبدیلی صرف ادب کی نہیں ہے معاشرے میں بھی ہیئت اور مواد کی شکلیں بدل رہی ہیں۔ اس صورت حال میں جس تبدیلی کی توقع ہم کررہے ہیں وہ سب سے پہلے معاشرے میں اور پھر ادب میں ہیئت کو اپنی جگہ قائم کرے گی اس کے بعد تغیر پذیر مواد کو اصولوں کے تابع کرے گی اور یوں جدید ادب کے بجائے وہ روایتی ادب پیدا ہوگا جو ہر آن بدلتے ہوئے تجربہ میں اپنی روایت کو برقرار رکھتاہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں