پاکستان… حیرتوں کا جہاں

پاکستان کی ساخت ھئیت ، خدوخال اور عوام پر جتنا غور کریں گے حیرتوں کے پہاڑ ِسرکنا بلکہ کھڑکنا شروع ھوجائیں گے ، اس قوم میں اتنی “ہمہ جہتی ” ہے کہ بس ، مثلا اچھے خاصے باریش صاحب کیساتھ الٹرا ماڈرن بیگم صاحبہ تشریف فرما ھونگی اور دونوں میں بھرپور خیرسگالی کے جذبات بھی پائے جاتے ھونگے ، چہرے پر کسی طرح کا تناو نہیں ِدکھے گا ، اسی طرح جدید تراش خراش کے شوھروں کیساتھ مکمل شرعی پردے کی خواتین بھی بکثرت نظر آتی ھیں، اس قوم نے طے کیا تو جوھری بم بنا ڈالا ( یہ الگ بحث ھیکہ اب اسے لئے لئے پھرتے ھیں سالے کی حفاظت ھی پرابلم بن گئی ، ھماری کدو پروٹیکشن کریگا ؛)  یہی حال کھیل کے میدان کا ھے کم وسائل کے باوجود ایک زمانے میں کرکٹ ، اسکواش ، اسنوکر اور ھاکی کے عالمی اعزازات ھمارے گھر کی لونڈیاں ھوا کرتے تھے ، ھمارے عالمی سطح کے “پنگے” اتنے مشہور و معروف قرار پائے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ آنسہ میڈئین البرائٹ کوباقاعدہ مضمون لکھنا پڑا کہ پاکستان عالمی برادری کے واسطے “آدھے سر کا درد بن چکا ھے ” خیر ھمارے ملک کے ادارے امریکیوں کے پکے دوست ھیں اور ایک دوسرے کی مشاورت و معاونت سے “عالمی دھشتگردوں ” کیخلاف برسوں سے ملکر کاروائیاں کررھے ھیں لیکن حقیقت ِ حال یہ ھیکہ و٥ ھم پہ ، ھم اُن پہ اعتبار نہیں کرتے ، ھمارے ملک میں لچک دیکھئے کہ کمانڈو کے بقول ، اس نے کئی القاعد٥ ارکان پکڑ پکڑ کر امریکیوں کو فروخت کئے ، لیکن اسامہ بن لادن نے اپنے واسطے کسی مقام کو رھنے کےلئے منتخب کیا تو و٥ پاکستان ھی تھا، ھم ایدھی کی بدولت نجی ایمبیولینس گاڑیوں کا سب سے بڑا سسٹم رکھتے ھیں اور غریب ملک ھونے کے باوجود صدقات و دسترخوانوں کا بھی موثرنظام و حیران کن نظام بھی ھمارے سخی پاکستانی ہی چلاتے ھیں ، مائیکروسافٹ کے کم عمر انجینئر بھی اسی دیس کے بچے ھیں ، قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں تک پاکستان ابھرتی ہوئی معیشتوں کی دوڑ میں شامل تھا ، تب یورپ و امریکا میں پاکستانیوں کی سچی مچی میں عزت ہوا کرتی تھی یہاں کے مہذب افراد کے گوروں کے دیسوں میں خوب چرچے تھے یہ اور بات ھے کہ بعد میں ہم نے اس عزت افزائی کا جواب اپنی حرکتوں سے اتنا الٹا دیا کہ اب سب سے زیادہ مشکوک ہی ہم ہیں ، کون نہیں جانتا کہ ماضی میں ہمارے پروفیشنلز ان ممالک میں راج کیا کرتے تھے لیکن اب سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ والے جس جرم کو حل کرنے میں برسہا برس لگاتے ہیں ہمارا حوالدار بوٹا چوہدری صیب ایسے کیس منٹوں میں نمٹادیتے ہیں ،ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں مذھبی و عصری تعلیم حاصل کرنے کے لئے غیر ملکی طلبہ کا جم غفیر موجود ہوتا تھا لیکن اب کچھ بھی نہیں ھے
اللہ کرے کہ ہمارا دیس ایک بار پھر تعمیر و ترقی کی شاہراہ پہ گامزن ہوسکے جسکی امید اب بھی دلوں میں زندہ تابندہ ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

حصہ
mm
فیض اللہ خان معروف صحافی ہیں۔۔صحافیانہ تجسس انہیں افغانستان تک لے گیاجہاں انہوں نے پانچ ماہ تک جرم بے گناہی کی سزا کاٹی۔۔بہت تتیکھا مگر دل کی آواز بن کر لکھتے ہیں۔کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل س وابستہ ہیں

جواب چھوڑ دیں