میں کوئی بھیڑ بکری نہیں ہوں

سالا مولوی ہی ذمے دار ہے یہ سالا مولوی جو ہے سارے فساد کی جڑ یہی ہے، علامہ اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا…

ڈرامہ سیریل باغی  قسط نمبر 1،2سوشل میڈیا سے شہرت پانے والی بے باک قندیل بلوچ کی زندگی کے اتار چڑھائو پر بنایا گیا ہے جس میں صبا قمر بطور قندیل بلوچ کردار ادا کررہی ہیں،ڈرامہ قندیل بلوچ کے حالات سے کافی حد تک مطابقت رکھتا ہے بلکل اسی پس منظر اور ماحول میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ڈرامے میں صبا قمر( قندیل بلوچ) کی تیز طراری، باغیانہ خیالات اور بے باکی سے پورا گائوں کیا سارے گھر والے پریشان ہوتے ہیں، صبا قمر( قندیل بلوچ) اپنے گھر کی غربت اور حالات کی وجہ سے یہ خواہش رکھتی ہے کہ اس کا چھوٹا بھائی بڑا آدمی بنے اور وہ خود ایک مشہور عورت بنے ۔اپنے خیالات کا وہ برملا اظہار کرتی ہے اور اپنے ماں پاپ کو کہ یہ باور کراتی ہے کہ میں کوئی بھیڑ بکری نہیں ہوں جسے کے شادی کے نام پر کہیں بھی ہانک دیا جائے جس کی وجہ صبا قمر( قندیل بلوچ)  کے والدیں بڑا پریشان رہتے ہٰیں۔

صبا قمر( قندیل بلوچ) کو گانے سننے اور ڈانس کرنا بہت پسند ہے جس کی وجہ سے اسے کئی مرتبہ کافی ڈانٹ بھی سننی پڑتی ہے لیکن ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا ہے۔

بچپن  سے جوانی تک کی محرومیوں اور حالات کی تنگی کی وجہ صبا قمر( قندیل بلوچ) منہ پھٹ،بدتمیز اور ایک نافرمان اولاد کے طور پر ابھرتی ہے۔ جس کی وجہ گھر والے کسی ممکنہ پریشانی سے بچنے کے لیے جلد از جلد شادی کرکے اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

صبا قمر( قندیل بلوچ) کی بہن کا شوہر آئے زور تشدد کرکے اسے گھر سے دھکے دے کر باہر نکال دیتا ہے جس کی وجہ سے گھر کا ماحول کافی کشیدہ رہتا ہے جس میں صبا قمر( قندیل بلوچ) کی بھابی کا بڑا حصہ ہوتا ہے  جو ہمارے مشرقی معاشرے میں گھر گھر کی کہانی کی طرح لگتا ہے۔

یہ وہ حالات تھے جو صبا قمر( قندیل بلوچ) کو درپیش تھے خدا جانے اصل قندیل بلوچ کے حالات ایسے تھے یا ڈرامے میں ایسے دکھائے گئے ہیں ڈرامے میں پیش کیے جانے والے کردار تو ہمارے معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں لیکن ڈرامے میں جو بے باکی،بے خوفی دکھائی گئی ہے وہ ہمارے معاشرے کو بگاڑنے کے لیے کافی ہے دیکھتے دیکھتے کئی لڑکیاں انہی راستوں کا انتخاب کر سکتی ہیں جن کا صبا قمر( قندیل بلوچ) نے کرنے کی جانب قدم بڑھانے کا آغاز کیا ہے۔

اس ڈرامے میں ضرورت سے زیادہ اور حقیقت سے دور بے باکی اور نڈر پن دکھایا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ  ہمارے مشرقی روایات کے حامل ڈراموں میں اس نوعیت کی خرافات کی گنجائش کہاں ہے؟اب آگے دیکھتے ہیں کہ یہ ڈرامہ مزید کیا گل کھلاتا ہے ہماری روایات کا کیا جنازہ نکالتا ہے اور کس حد تک عورت کی بغاوت میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

“میرے جلتے مکان کو کیا معلوم.

میرے گھر کے چراغ مجرم ھیں

 

حصہ
mm
عبدالرشید دل تحقیق کار، مترجم اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہیں۔ آج کل تدریس کےشعبہ سے منسلک ہونےکےساتھ ساتھ پاکستان جرنل آف نیورولوجکل سائنسز کے مئنجنگ ایڈیٹر بھی ہیں

جواب چھوڑ دیں