ماں تو ماں ہے

ماں جیسی ہستی دنیا میں کہاں ، نہیں ملے گا بدل ڈھونڈ لو سارا جہاں ،بچپن میں ماں کے حوالے سے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ گانا دیکھتا تھا اس وقت اچھی بڑی عمروں کے اداکاروں کو اپنی ماں کو آنسوں سے روتے دیکھا ۔ واقعی ماں کی قدر ان سے پوچھو جن کے پاس نہیں ہے، میں نے تو اپنی زندگی میں سنگدل سے سنگدل انسان کو ماں کا ذکر کرتے ہوئے نرم ہوتے دیکھا ہے ۔ ماں تو ماں ہے سب سے پیاری سب سے اچھی لیکن آج ماں کا ذکر ذرا’وکھرے ‘انداز میں کریں گے، آپ کے لبوں پر مسکان تو آئے گی لیکن یہی تحریر جب آپ اپنی امی کو پڑھوائیں تو ذرا سامنے بیٹھ کر مشاہد کیجئے گا کہ وہ اپنی مسکراہٹ پر قابو کر سکی ہیں یا نہیں۔

جیسے عمومی طور پر بچے پانی کو ’مم‘اور چاول کو ’ہپّا‘کہتے ہیں سمجھ نہیں آتا ان کو یہ کیسے سکھایا جاتا ہے بالکل اسی طرح اَمیوں کے ڈئیلاگ سن کر بھی حیرت ہوتی ہیں مختلف علاقوںا ور شہروںمیں بسنے والی مائیں اپنے غصے اور لاڈ میں میں بچوں سے ایک جیسے ڈائیلاگ کیسے بول لیتی ہیں ، ہوسکتا ہے سارے ڈائیلاگز کے بارے میں آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن اکثر جملے ایسی ہی ہوں گے ۔

لینڈ لائن فون پر دوستوں پر باتیں کرنا آسان نہ لیکن موبائل فون نے اس میں کچھ آسانی کر دی ہے ، ماں تو ماں ہے وہ دیکھ کر پہچان لیتی ہے اور کہتی ہے،’فون پر کون سے ماں سے باتیں ہو رہی ہیں۔

جب بچے امی کی نہ سنیںیا قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں تو ایسی صورت میں ہم نے اپنی امی یہ یہی دھمکی بار ہا سنی ’آنے دو ابو کو‘۔اب تو خیر پہلے زمانے کے غصے والے ابو نہیں ہیں، بلکہ نرم مزاج، بچوں کے دوست ابو پائے جاتے ہیں ۔میں آپ کو اپناذاتی تجربہ بتاتا ہوں کہ پرانے دور کے میرے ابو نئے دور میں آکر انتہائی نرم مزاج ہو گئے ہیں اب تو ہمارے دوست بن گئے ہیں بچپن میں مجال ہے جو ہم ابو کے گھر آنے کے بعد دھماچوکڑی مچا سکتے۔امی کی بات کرتے کرتے ابو کا ذکر شروع ہو گیا واپس امی کی طرف آتے ہیں۔

بچوں نے جب امی سے پیسے مانگنا ہوتے تھے تو یہی سننے کو ملتا تھا ’ہاں ہاں پیسے تو درختوں پر اگتے ہیں۔‘لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے آج کل کی امیاں پیسے دینے پر ماضی جیساردعمل نہیں دکھاتیں۔

پہلے تو بچوں کے پاس کھیلنے کا گھر میں ادھم مچانے کا وقت ہوا کرتا تھا آج کی طرح نہیں کہ صبح سویرے اٹھ کر اسکول چلے گئے ، دوپہر میں مدرسہ یا قاری صاحب، سہہ پہر میں ٹیوشن ، شا م میں ہوم ورک جو تھوڑا وقت مل گیا اس دوران کمپیوٹرپر گیم کھیل لیا یا انٹر نیٹ ، اس کے بعد کہاں کا ادھم کہاں کی مستیاںلیکن پچھلے دور میں جب امی کو بہت زیادہ تنگ اور امی سے کچھ نہ بن پایا وہ روہانسی ہو گئیں اور بولتی تھیں،’جب میں مر جاں کی تو پتہ چلے گا۔

بچے ہمیشہ سے کھانے کے چور رہے ہیں اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔ کھانا نہ کھانے کی صورت میں ماضی میں بولا جانے والا مشہور زمانہ ڈائیلاگ آج ویسا ہی مقبول ہے ،’تھوڑا سا کھا لو میرا بچہ ، شکل دیکھو کیسی ہو گئی ہے۔‘دوسری بات ماں کو پراٹھا بہترین غذا دکھائی دیتا ہے جب ذرا کی طبیعت خراب ہوئی تو کہا جاتا ہے ،’بس اب کل سے ناشتے میں روز پراٹھا ملے گا۔

ماں کے مسائل بچے نہیں سمجھ سکتے اور یہی صورتحال ہوتی ہے جب امی جھنجھلا جاتی ہیں اور کہتی ہیں ’جب تمہارے بچے ہوں گے تو پتہ چلے گا۔

با ت پر کان نہ دھرنا بچوں کا معمول ہے اور جب وہ مستی کے موڈ میں ہوں تو پھر اللہ خیر کرے ، لیکن تفریح کا انداز کبھی کبھی امی کو سمجھ نہیں آتا تو ان کے منہ سے یہی نکلتا ہے کہ ’ٹھیک ہے مت مانو میری بات ، بعد میں پتہ چلے گا۔

امی بڑی ہیں ، دن بھر واسطہ بھی ان سے پڑتا رہتا ہے ، تجربہ ان کو کئی چیزیں سکھا چکا ہوتا ہے اسی بناءپر وہ ہمیں وقتاً فوقتاًخبردار کرتی رہتی ہیںاور اکثر اوقات ان کی بات پر عمل بھی ہوتا ہے لیکن جب اپنی مرضی چلائی اور امی کے منع کرنے کے باوجود وہی کیا جس سے روکا گیا تو پھر تیار رہیں ’میں نے تو پہلے ہی کہا تھا ‘سننے کے لئے۔

ویسے امی کی خدمت کرنا چاہیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے کام خود کئے جائیں لیکن کبھی کبھی امی کام سے ہلکان ہوں اور ہمیں اندازا نہ ہو کہ امی تھکی ہوئی ہیں اور ایسی صورت میں ان کو کپڑے استری کرنے یا ایک گلاس پانی لانے کا کہا جائے تو فوراًجواب آتا ہے،’ہر کسی نے مجھے نوکر سمجھ کر رکھا ہوا ہے یہاں۔

ہر کام عمر کے ساتھ ساتھ سیکھا جاتا ہے اور اس کا دارومدار ذمے داری عائد ہونے پر بھی ہے،جیسے ماں باپ ہمیں ملے ہمارے والدین کو نہیں ملے تو ان کی تربیت مختلف انداز میں ہوئی اب ہم نازو نعم میں پلے بڑھے جب امی نے کوئی کام دیا اور ہم سے ہو نہیں سکا تو فوراً امی جتا دیا کرتی تھیں’جب میں تمہاری عمر کی تھی تو پورا گھر سنبھالاہوا تھا۔

دن بھر کام کاج کرتی رہیں اور کام ہیں کہ ختم ہی نہ ہوں اور ایسے میں اگر امی بچوں کو موبائل پر فیس بک یا فون پر بات کرتے دیکھ لیں تو غصے میں یہی کہا جاتا ہے ، ’سارا وقت، کمپیوٹر، دوست، فیس بک، فون ، مجال ہے جو کبھی ماں کو بھی پوچھ لو۔

پتہ نہیں بچوں کو کیا شوق ہوتا ہے کہ قریب سے ٹی وی دیکھا جائے ، ہم بھی بچپن میں ایسا ہی کیا کرتے تھے ، تو یہی سننے کو ملتا تھا ’ایک کام کرو بیٹا ، ٹی وی کے اندر گھس جا۔

کسی کام میں مصروف ہیں اور امی نے بولا بیٹا سبزی لادو، ایک بار تو پیار سے ، دوسری بار غصے سے اور تیسری بارآواز آتی ہے، ’جارہے ہو یا میں خود جا کر لے آں۔

آج کل مائیں ذرا بدل گئی ہیں لیکن احساسات تو سب کے ہی ہوتے ہیں جب امی کو ہلکا لیا جائے اور ان کو اس بات کا احساس ہو جائے تو امی کہتی ہیں، ’میں تو ماں ہوں پوچھ لیتی ہوں، کوئی اور نہیں کرے گا یہ سب۔

ماں کی جانب سے مزید کچھ مشہور زمانہ جملے پیش خدمت ہیں

مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا یہ گلاس ٹوٹے گا،ایک زور کا تھپڑ پڑے گا تو طبیعت ٹھیک ہوجائے گی تمہاری،کیا سمجھ رکھا ہے مجھے میں انسان ہوں کہ مشین۔

بہرحال ماں اور اولاد کے رشتے کا کوئی نعم البدل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماں اپنے بچوں کو خوشیاں اور آرام دینے کی خاطر اپنی سی ہر کوشش کرتی ہے۔بچپن ہو یا لڑکپن اس دور میں ماں کی توجہ اولاد پر بہت زیادہ ہوتی ہے اور بعض اوقات امی کا بات بات پر پریشان ہونا آپ کو الجھن میں مبتلا کر دیتا ہے لیکن کیا کیا جائے ماں تو ماں ہے۔

 

حصہ
عبد الولی خان روزنامہ جنگ سمیت متعدد اخبارات و جرائد میں اپنے صحافیانہ ذوق کی تسکین کے بعد ان دنوں فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں۔انشاء پردازی اور فیچر رپورٹنگ ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے۔

جواب چھوڑ دیں