بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان سیاسی اور سفارتی تناؤ اب اسٹریٹجک میدانوں میں داخل ہو رہا ہے۔ ایک طرف بنگلا دیش نے بھارت سے ملحق سرحدوں پر ترکی کے تیار کردہ جدید ترین بیریکٹر ٹی بی ٹو ڈرون تعینات کیے ہیں اور دوسری طرف ایک اہم ٹیلی کام معاہدہ بھی منسوخ کردیا ہے۔
شیخ حسینہ واجد کے دور میں بھارت نے بنگلا دیش سے ایک خصوصی ٹیلی کام معاہدہ کیا تھا جس کا بنیادی مقصد شمال مشرقی بھارت کی تمام ریاستوں میں انٹرنیٹ سروس کا معیار بلند کرنا اور تسلسل یقینی بنانا تھا۔ اس معاہدے کے تحت سنگاپور سے آنے والے زیرِآب انٹرنیٹ کیبل سے شمال مشرقی بھارت کو مستفید کرنے کے لیے بنگلا دیش کو ٹرانزٹ پوائنٹ کا کردار ادا کرنا تھا۔
بنگلا دیش ٹیلی کمیونی کیشن ریگیولیٹری کمیشن (بی ٹی آر سی) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس معاہدے سے بھارت کو غیر معمولی فوائد حاصل ہونے تھے۔ اس کی سات آٹھ ریاستوں میں انٹرنیٹ کی سہولت بہتر بنانا ممکن ہوچکا ہے تاہم اس معاہدے سے بنگلا دیش کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ ٹرانزٹ پوائنٹ کے طور پر استعمال ہونے کے باوجود اُس کے لیے خاطر خواہ آمدنی یا کسی اور ایڈوانٹیج کی راہ بھی ہموار نہیں ہوئی۔
بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے بھارت سے ٹیلی کام ڈیل منسوخ کردی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے یکم دسمبر ہی کو ہدایات جاری کردی تھیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ بنگلا دیش کی طرف سے بھارت کو یہ جھٹکا لگ چکا ہے۔
ترک ساخت کے جدید ترین ڈرونز تعینات کیے جانے پر بھی بھارتی میڈیا مشین خوب شور مچارہی ہے اور یہ دعوٰی کر رہی ہے کہ انتہا پسندوں نے بنگلا دیش کو ہائی جیک کرلیا ہے۔ بھارت کے سیاسی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ بنگلا دیش اب بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ پاکستان اور چین کی طرف زیادہ جھک رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ نیپال بھی اب ایسی ڈیلز کر رہا ہے جن کا مقصد بظاہر بھارت کو نیچا دکھانا ہے۔ اُس نے حال ہی میں چین کے عظیم بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بھی شمولیت اختیار کرلی ہے۔
۔۔۔۔۔۔