سیاسی راستہ تلاش کرنا ہوگا

394

پاکستان کا سیاسی بحران بند گلی میں کھڑا ہے۔ بظاہر ہم مطمئن ہیں کہ سیاسی حالات ہمارے کنٹرول میں ہیں اور ریاستی نظام سمیت حکومت کسی خطرے سے دوچار نہیں۔ لیکن یہ سیاسی نظام مجموعی طور پر ریاستی طاقت یا اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کھڑا ہے اور جو سیاسی و جمہوری بندوبست بھی ہمیں نظر آرہا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کو اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کو اپنی بقا کا راستہ سمجھتی ہے۔ طاقت کی اس حکمرانی کے کھیل میں ہم نے اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگا دیا ہے اور کسی قسم کا کوئی سیاسی راستہ سیاسی مخالف پی ٹی آئی کے لیے نہیں ہے۔ پی ٹی آئی مسلسل احتجاج کی سیاست کا حصہ ہے اور اس کھیل میں ماضی کے کھیل کی طرح سیاسی مخالف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔ جمہوری نظام ایک کنٹرولڈ یا ہائبرڈ سیاسی نظام کے طور پر موجود ہے جہاں طاقت کا مرکز سیاسی قوتوں کے مقابلے میں پس پردہ قوتیں ہی اور فیصلہ سازی کا ریموٹ کنٹرول بھی ان ہی کے پاس ہے۔ ریاست اور حکومت کی حکمت عملی سیاسی مسائل کے حل میں سیاسی حکمت عملی نہیں بلکہ طاقت کا استعمال ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں سیاسی اختلافات کی جگہ سیاسی دشمنی کا غلبہ ہے اور ہم طاقت ہی کے انداز میں اپنے سیاسی مخالفین کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مفاہمت کی سیاست میں ایک دوسرے پر جبر اور زبردستی کی بنیاد پر اپنا اپنا ایجنڈا مسلط کرنا سیاسی اور غیر سیاسی قوتو ں کی ترجیحات کا حصہ بن گیا ہے۔ طاقت کے زور پر انسانی حقوق اور سیاسی و جمہوری حقوق کا گلہ دبایا جارہا ہے۔ آزادی اظہار پر کئی طرح کے سوالیہ نشان ہیں اور مختلف قانون سازیوں کی مدد سے اظہار رائے کو مختلف نوعیت کے دبائو کا سامنا ہے۔ ملک میں ڈیجیٹل میڈیا پر کئی طرح کی پابندیاں ہیں اور جو بھی ریاستی و حکومتی نظام پر متبادل آواز اٹھاتا ہے اسے مختلف حربوں سے ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے۔ ایک جماعت یعنی پی ٹی آئی پر مسلسل سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے اور ان کی قیادت سمیت سب ہی جیلوں میں ہیں اور ان کو سیاسی راستہ دینے سے گریز کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ملک کے داخلی حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ سیاسی، جمہوری یا آئینی و قانونی مسائل سمیت سیکورٹی اور گورننس کے بحران نے پورے ریاستی نظام کی ساکھ پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور وہی پرانی غیر جمہوری ڈگر یا آمرانہ طرز عمل کی بنیاد پر ریاست اور حکومتی عمل کو چلایا جارہا ہے۔ ریاست اور حکومت کی پالیسیوں پر محض داخلی محاذ پر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہماری جمہوری ساکھ پر سوالات کھڑے ہیں اور ہمیں انداز ہی نہیں کہ ہم بطور ریاست کہاں کھڑے ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ آج بھی سیاسی قوتوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور سب کی سیاسی حیثیت کوقبول کرے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ یا پی ٹی آئی حکومت میں جو بھی ڈیڈ لاک ہے اس جمود کو ٹوٹنا چاہیے اور ایک ایسا درمیانی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو سب کو آگے بڑھنے کا راستہ دے سکے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم بطور ریاست جن مسائل و مشکلات کا شکار ہیں اس سے بچنے کا واحد راستہ سیاسی استحکام کی سیاست ہے۔ اسی طرح سیاسی استحکام کے بغیر نہ تو معاشی استحکام آسکے گا اور نہ ہی دہشت گردی سمیت سیکورٹی کے بحران سے نمٹ سکیں گے۔ اس لیے واحد یہ ہی حکمت عملی ہے کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی ایک ذمہ دارانہ کردار کی مدد سے ایک دوسرے کے لیے سیاسی گنجائش کو پیدا کریں تاکہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کا کھیل ختم ہو۔ اس وقت جو ملک میں سیاسی تقسیم ہے اور یہ تقسیم محض سیاست تک محدود نہیں بلکہ اس تقسیم نے پورے ریاستی نظام یا ادارہ جاتی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس سیاسی تقسیم سے بچنے کا راستہ بھی سیاسی بات چیت، مکالمہ اور مفاہمت کی سیاست ہی ہے اور اسی کو اپنی کنجی بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ سیاسی قوتیں جیسے بھی ہیں اور جیسی بھی ان سے غلطیاں ہوں ان کو ملک دشمنی کے کھیل سے جوڑنا خطرناک رجحان ہوگا۔ اسی طرح خیبر پختون خوا میں گورنر راج یا پی ٹی آئی پر پابندی بھی مسائل کا حل نہیں بلکہ اس عمل سے سیاست میں اور زیادہ کشیدگی ہوگی۔ پی ٹی آئی کو بھی سمجھنا ہوگا کہ مزاحمت کی سیاست محض سڑکوں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ پارلیمانی سیاست اور میڈیا کے محاذ پر بھی مزاحمت کی جاسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی کوشش خود بھی مفاہمت کی سیاست کا راستہ تلاش کرنے پر ہونی چاہیے اور وہ حکومت کو مجبور کرے کہ وہ مفاہمت یا بات چیت کی طرف بڑھے۔ یہ تاثر پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی سیاسی قوتوں سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی اور اس کی توجہ کا مرکز محض اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اب بھی سیاسی قوتوں، اسٹیبلشمنٹ کے پاس واحد آپشن مذاکرات اور بات چیت ہی ہے اور جب تک اس حکمت عملی سے گریز کیا جائے گا ملکی سیاسی اور معاشی بحران حل نہیں ہوگا۔ اس لیے زیادہ ذمے داری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی اور جمہوری حکمت عملی اور آئین و قانون کی حکمرانی کی بنیاد پر آگے بڑھے۔ یہ ہی حکمت عملی اس وقت ملک کے مفاد میں بھی ہے اور اسی سے ملک میں سیاسی استحکا م پیدا ہوگا۔ وگرنہ جو راستہ ہم نے اختیار کیا ہوا ہے اور بضد ہیں کہ اسی بنیاد پر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو پھر ریاست اور حکومت کا یہ نظام اپنی ساکھ کھو دے گا۔ یہ عمل مزید سیاسی تقسیم اور سیاسی دشمنی کے کھیل کو اور زیادہ بدنما کرے گا جس کی بڑی ذمے داری ریاست اور حکومت دونوں پر عائد ہوگی۔ ہمیں ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ طاقت اور انتقام کی بنیاد پر نہ تو سیاسی جماعت ختم ہوسکتی ہے اور ہی سیاسی قیادت ان کو کمزور اور ختم کرنے کا راستہ بھی سیاسی اور جمہوری عمل اور سیاسی نظام کے اندر ہی سے تلاش کرنا چاہیے۔ جبر اور طاقت کی بنیاد پر سیاسی قیادت کے خلاف مخالف مہم خود ریاست اور جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔ حکومت نے جس ریاستی طاقت کی مدد سے پی ٹی آئی کے احتجاج کو روکا اور پورے ملک کے نظام کو مفلوج کردیا اس حکمت عملی نے جہاں حکومت کی کمزوری کے کئی پہلوؤں کو نمایاں کیا وہیں ملک میں طاقت کی حکمرانی کو بنیاد بناکر اپنے سیاسی مخالفین میں سخت ردعمل کی سیاست کو بھی جنم دیا۔ بالخصوص اس کا ایک بڑا ردعمل ہمیں خیبر پختون خوا کی سطح پر دیکھنے کو ملے گا۔ یہ انداز جمہوری سیاست کو کمزور اور تشدد یا بندوق کی سیاست کو فروغ دے گا۔ ہمیں سیاسی کارکنوں اور دہشت گردوں کے درمیان فرق کو سمجھ کر اپنی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے تاکہ سیاسی کارکن سیاسی پرامن جدوجہد کی بنیاد پر اپنا جمہوری کردار ادا کرے۔ سیاسی ضد اور تعصب سے نکل کر جب ہم سیاسی راستہ تلاش کریں گے تو مسائل کا حل بھی نکل آئے گا۔ ہمیں خود کو سیاسی تماشا کمزور پر پیش کرنے کے بجائے ایک ذمے دار کردار اور حکمت عملی پر توجہ دینی چاہیے۔