پاکستان وبھارت، ماحولیاتی سفارت کاری اور حل

295

زہریلا اسموگ جو پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کے دونوں اطراف کے شہروں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے جس سے فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے عوامی صحت خاص طور پر بچوں اور بوڑھوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں، یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق، جنوبی ایشیاء میں تقریباً 600 ملین بچے فضائی آلودگی سے نقصان دہ حد تک شکار ہوتے ہیں، جن میں سے نصف اموات بچپن میں نمونیا سے ہوتی ہیں ان کا تعلق ماحولیاتی آلودگی سے ہے۔ جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، خاص طور پر لاہور، پاکستان اور نئی دہلی، بھارت دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ نومبر 2024 تک، دونوں شہر عالمی ادارہ صحت حدوں کو تجاوز کرتے ہوئے شدید فضائی آلودگی کی حد ترین سطح تک جا پہنچے ہیں۔ لاہور دنیا کا دوسرہ آلودہ ترین شہر جبکہ نئی دہلی میں 1 نومبر کو AQI (ائر کوالٹی انڈیکس) دنیا کا سب سے آلودہ ترین ریکارڈ کیا گیا، جس کے نتیجے میں نئی دہلی دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر بن گیا۔

فضائی آلودگی کے صحت پر اثرات سنگین ہیں۔ ’’دی لینسیٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں فضائی آلودگی سے سالانہ 2 ملین اموات ہوتی ہیں، جن میں سے 1.6 ملین فضائی آلودگی کے باعث ہیں۔ بھارت دنیا میں فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ 2019 میں بھارت میں 2.3 ملین قبل از وقت اموات ہوئیں، جن میں 1.6 ملین فضائی آلودگی سے ہوئیں۔ عالمی سطح پر فضائی آلودگی ہر سال 90 لاکھ اموات کا سبب بنتی ہے، جبکہ صرف بھارت میں فضائی آلودگی سے سالانہ 10 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں، یہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔ (بی بی سی انڈیا 2022)

پاکستان میں بھی آلودگی کا مسئلہ سنگین ہے، شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، خاص طور پر لاہور میں جہاں آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت کی محفوظ حد سے تجاوز کر گئی ہے، جس سے اوسط عمر 7.5 سال کم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال 22 ہزار اموات بیرونی فضائی آلودگی سے ہوتی ہیں اور 28 ہزار اموات اندرونی آلودگی سے۔ مزید برآں، پاکستان میں اندرونی فضائی آلودگی فی ایک لاکھ افراد میں 30 اموات اور بیرونی آلودگی فی ایک لاکھ افراد میں 25 اموات کا سبب بنتی ہے۔ (ڈبلیو ایچ او)

آلودگی کی وجوہات میں گاڑیوں کی گیسیں، صنعتی دھواں، اور فصلوں کا جلانا شامل ہیں۔ موسمی تبدیلیاں، خاص طور پر سردیوں میں، آلودگی کو مزید بڑھاتی ہیں، اور لاہور میں اسموگ کا زیادہ تر سبب بھارت سے آنے والی فضائی آلودگی ہے، جو سردیوں میں شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ فضائی آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بڑی مالی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اور دونوں ممالک کے معاشی مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ ایک مشکل امر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک میں زرعی طریقے بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں۔ کھیتوں کی صفائی کے لیے فصلوں کے باقیات کو جلانے کی عادت فضائی آلودگی میں اضافہ کرتی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مربوط کوشش کی ضرورت ہے جس میں دونوں ممالک کو مشترکہ وسائل کے ساتھ پائیدار زرعی طریقوں کی ترویج کرنی ہوگی۔

ظاہر ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے بھارت سے بات چیت ایک اہم عمل ہے لیکن اس کے علاوہ پاکستانی حکومت کو بھی خود سنجیدگی سے بہت سارے جامع منصوبے بنانے ہوں گے، پاکستان کو خود کفیل ہو کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے نہ کہ بھارت پر منحصر ہو کر کوئی لائحہ عمل بنایا جائے جیسا کہ انجینئر محمد رمضان آصف اور انجینئرعثمان رفیق کا کہنا تھا کہ اسموگ کو کم کرنے اور صحت عامہ کے تحفظ کے لیے پاکستان حکومت خاص طور پر پنجاب حکومت کو اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمارے خیال میں ایسا کرنا اتنا مشکل نہیں جس کی ایک جیتی جاگتی مثال لندن کے مئیر صادق خان ہیں جنہوں نے کاربن ایمشن کو کم کرنے کے لیے لندن شہر کو صاف ستھرا، سرسبز و شاداب اور پائیدار میٹروپولیٹن سٹی میں تبدیل کرنے کا ایک پرجوش ایجنڈا طے کیا جس کا مقصد 2030 تک لندن کے کاربن کے اخراج میں زبردست کمی لانا شہر کو عالمی آب و ہوا کے معیار کے مطابق ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس منصوبے کا ایک بنیادی پہلو ہوا کے معیار کو بہتر بنانا ہے، خاص طور پر الٹرا لو ایمیشن زون (ULEZ) کی توسیع، جو کہ اب گریٹر لندن تک بڑھا دیا گیا ہے، جس کا مقصد پرانی، زیادہ آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں سے فضائی آلودگی سے نمٹنا اور عوام کے لیے صاف ستھری آب و ہوا میسر کرنا، زیرو ایمیشن ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا، بشمول الیکٹرک گاڑیوں کے انفرا اسٹرکچر کو پھیلانا اور صاف ستھرا پبلک ٹرانزٹ میں منتقلی کی حمایت کرنا، لندن کی سبز جگہوں کو بڑھانے اور حیاتیاتی تنوع کو بہتر بنانے پر بھی توجہ مرکوز کرنا، نئے پارکس، گرین زونز کا قیام شامل ہے، ماحولیاتی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرکے ہزاروں نوکریاں پیدا کی جائیںگی، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور لندن کے تمام شہریوں کے لیے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع پلان اور شہر کو ماحولیاتی پائیداری میں عالمی طور پر عمدہ درجہ فراہم کرے گا۔

اس طرح لاہور کو بھی اپنے ماحولیاتی اہداف مقرر کرنا ہوں گے ان اہداف سے حکومت کو آمدن کا حصول بھی ممکن ہوگا جبکہ نو جوانوں کے لیے گرین ماحولیاتی پروجیکٹس کے ذریعے ہزاروں نوکریاں بھی مہیا کی جا سکتی ہیں، صوبائی حکومت کو سخت فیصلے لینا ہوں گے، عوام کو مستقبل کے خطرات سے بچانے کے لیے خاطرخواہ کوششیںکرنی ہوں گی، جیسا کہ ہوا کے معیار کی نگرانی اور اسموگ الرٹس جاری کیے جائیں، ریئل ٹائم آلودگی کی نگرانی کی جائے، شہری اور صنعتی علاقوں میں آلودگی کی سطح کو ٹریک کرنے کے لیے ہوا کے معیار کی نگرانی کرنے والے اسٹیشنوں کی تنصیب۔ صوبہ میں ہنگامی بنیاد پر سیٹلائٹ سرویلنس کی جائے، صوبے بھر میں اسموگ کے ذرائع اور آلودگی کے رجحانات کی نگرانی کے لیے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنایا جائے، AI پیش گوئی کے ماڈل استعمال کیے جائیں تاکہ اسموگ کے نمونوں کی پیش گوئی کرنے لیے مصنوعی ذہانت کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔

صحت عامہ کے اقدامات کرنا، آگاہی مہم جوئی، عوام کو اسموگ کے صحت کے خطرات سے محفوظ بنانے کے لیے مفت ہیلتھ کلینکس اور میڈیکل کیمپ اور اسموگ سے متاثرہ کمزور آبادیوں کو مفت صحت کی سہولتیں فراہم کرنا، خاص طور پر آلودگی کے عروج کے موسموں میں۔ شہری علاقوں میں درخت لگانا آلودگی کو جذب کرنے اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے۔ اسموگ سے پاک زونز کا قیام، قدرتی ہوا صاف کرنے کے لیے گرین بیلٹس اور پارکس کا قیام، لاہور جیسے شہروں میں اسموگ کے ارتکاز کو کم کرنے میں مدد کرنا۔ سخت ضابطے اور جرمانے: فصلوں کی باقیات کو جلانے والے کسانوں کے خلاف جرمانے اور قانونی کارروائیاں کرنا۔ متبادل کے لیے سبسڈیز: صفر تک کاشت کاری اور بائیو ماس کٹائی کے آلات کے لیے سبسڈی فراہم کرنا۔ فصل کے باقیات جلانے کے مضر اثرات کے بارے میں کسانوں کو تعلیم دینا اور ماحول دوست طریقوں کو فروغ دینا۔ کارخانوں کے لیے اخراج کے لیے سخت مینجمنٹ پلان، اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت ضابطوں کا نفاذ۔

خاص طور پر لاہور جیسے زیادہ آلودگی والے علاقوں میں، اینٹوں کے بھٹوں اور دیگر صاف ٹیکنالوجیز کے لیے Zig-Zag ٹیکنالوجی کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنا۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات (EVs) الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے، نقصان دہ اخراج کو کم کرنے کے لیے سبسڈی اور مراعات مہیا کرائی جائیں، سختی سے اس بات کو یقینی بنانا کہ صرف ان گاڑیوں کو چلانے کی اجازت ہے جو اخراج کے معیارات پر پورا اترتی ہیں۔ وفاقی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کے ساتھ مل کر کام کرنا (مثلاً، سلفر کے مواد کو کم کرنا) اور ملک گیر ماحولیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنا۔

لاہور اور نئی دہلی پر چھائے اسموگ کا بحران جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی کے سنگین مسائل کی طرف توجہ دلانے کا ایک اہم موقع ہے۔ اگرچہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تاریخی تعلقات میں مشکلات ہیں، لیکن یہ مشترکہ ماحولیاتی چیلنج دونوں ممالک کے درمیان بات چیت اور تعاون کا ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔ پاکستان کی موسمیاتی سفارت کاری کے لیے شروع کردہ اقدام یہ ظاہر کرتا ہے کہ فضائی آلودگی کے بحران کا حل صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی ضرورت بھی ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان مل کر کام کریں تو وہ اپنے شہریوں کے لیے صحت مند مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں اور عالمی ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔

پاکستان بھارت کے ساتھ ماحولیاتی ڈپلومیسی کو جاری رکھے لیکن اس حد تک بھارت پر مکمل اعتماد مت کریں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ اس معاملے میں تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائے گا اور پاکستان کے ساتھ یقینی طور پر اس مسئلے کا حل تلاش کرے، بہت سے منصوبے و معاہدے کرے،کیونکہ بھارت ہمیشہ ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے، لیکن پاکستانی حکومتی خاص طور پر پنجا ب حکومت یقینی بنائے کے جس طرح بھارت میں ماحولیاتی آلودگی، فضائی آلودگی سے شرح اموات کی بد ترین صورت حال ہے جس میں زیادہ تر بچے شامل ہیں جو کہ پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے اس خطرے سے پاکستانی عوام کو محفوظ بنانے کے لیے سر توڑ محنت کرے، پاکستانی عوام کو بنیادی طور پر فضائی آلودگی سے دور کرنے اسموگ سے نجات دلانے کے لیے بروقت جلد از جلد کچھ اہداف طے کرے تاکہ آنے والے وقت میں پاکستان کا شہر لاہور دنیا کے اوسطاً کم فضائی آلودگی والے شہروں میں شمار ہوسکے۔