قربانی تو صاحب استطاعت ہی کو دینی چاہیے

288

پاکستان میں حکمران طبقہ اکثر ملک کی ترقی و خوشحالی کے نام پر عوام سے قربانی کا تقاضا کرتا اور عوام ہمیشہ قربانی دے دیتے ہیں۔ کبھی کڑوی گولی، کبھی کڑوا گھونٹ کہہ کر کبھی مجبوری قرار دیکر منوالیتے ہیں، اور قربانیاں دے دے کر عوام میں استطاعت ختم ہوتی جارہی ہے، حکومت قرضے پر قرضہ لے رہی ہے اور عوام پر ٹیکس پر ٹیکس تھوپے جارہے ہیں عوام ٹیکس دینے کے بعد ادھ موئے ہوجاتے ہیں پھر ان پر مہنگائی کے بم گرائے جاتے ہیں، ان کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام پر بجلی بم گرادیے جاتے ہیں اب صورت یہ ہوگئی ہے کہ مہنگائی اور ٹیکسوں کے مارے عوام بجلی کے بل دیں یا بچوں کے اسکول کی فیس، اسپتالوں کا خرچ پورا کریں یا گھروں میں موجود بوڑھے والدین کی دواوں کا انتظام کریں، انہیں ایک دو نہیں کئی چیزوں کی قربانی دینی پڑتی ہے، اب ٹیکس دے دے کر بل ادا کر کر کے عوام میں قوت نہیں رہی ہے اور دوسری طرف مراعات یافتہ طبقہ اور بڑے مالدار لوگ ٹیکس بھی کم دے رہے ہیں اور مراعات بھی زیادہ لے رہے ہیں، خود حکومتی اداروں کی رپورٹس ہیں کہ ایف بی آر چوبیس ہزار ارب کے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہا ہے، اس کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا گیا، ٹیکس فائلرز بڑھا کر آئی ایم ایف کو دکھایا گیا کہ ہم نے ٹیکس نیٹ بڑھا دیا ہے لیکن زیرو ٹیکس لکھ کر جمع کرانے والوں کی تعداد بھی بڑھ گئی، محاصل میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہوا۔ ان حالات میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے حکومت کے سارے دعووں کا کچا چٹھہ کھول دیا اور بتادیا کہ حکومت دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی کے ونٹر پیکیج کے نام پر عوام کو بے وقوف بنایا گیا، شہباز شریف کے مہنگائی کم کرنے کے دعوے غلط ہیں، ان کی پوری حکومت ہی جھوٹ اور فارم 47 کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اشرافیہ ٹیکس نہیں دیتی اور غریبوں اور تنخواہ داروں کا خون نچوڑا جارہا ہے، حکومت کہہ رہی ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے، یہ لوگ مہنگائی کم ہونے کا حساب اس طرح لگاتے ہیں کہ گزشتہ نومبر میں سو روپے کی چیز پر بیس روپے کا اضافہ ہوا تھا، اس سال 120 روپے کی چیز میں 18 روپے کا اضافہ ہوا ہے، چیز کی قیمت 100 سے 138 تک پہنچ گئی، لیکن شہباز شریف کے نزدیک مہنگائی کم ہو گئی، اسے حکومتی انڈکس کہتے ہیں اگر مہنگائی کم ہو رہی ہے تو صنعت و تجارت، بجلی و پٹرول کی قیمتیں کم کیوں نہیں ہو رہیں؟ کیوں عوام پریشان ہیں؟ آئی پی پیز کو ہزاروں ارب روپے کیپسٹی چارجز کی مد میں دیے جا رہے ہیں، جو بجلی بنتی نہیں اس کے بھی پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے مہنگائی اور مہنگی بجلی کے خلاف دھرنا دیا، آئی پی پیز کے پیچھے پڑے، مسلسل فالو اپ کر رہے ہیں۔ کل حکومت نے عوام کو بے وقوف بنانے کیلیے ایک ونٹرپیکیج کا اعلان کیا ہے۔ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ ہم نے بجلی سستی کر دی ہے۔ دھرنا شروع کرنے سے پہلے عوام کو یاد ہو گا کہ وزیر توانائی کہتے تھے کہ ہم آئی پی پیز سے بات ہی نہیں کر سکتے‘ جب دھرنے میں بیٹھے رہے تو انہوں نے ہم سے ایک ایگری منٹ بھی کیا اور پانچ آئی پی پیز بند بھی کیں۔ تمام آئی پی پیز بند ہونی چاہییں فوجی فائونڈیشن سے بھی بات ہونی چاہیے، ساری قربانی عوام ہی نہیں، جرنیل بھی قربانی دیں، حافظ نعیم کا مطالبہ بجا ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ ساری قربانی عوام ہی نہیں جرنیل بھی دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام میں تو استطاعت ہی ختم ہوگئی ہے اور قربانی کے اصول کے تحت صاحب استطاعت اور مراعات یافتہ طبقہ اب قربانی دے، اس صورتحال پر سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے بھی بجا تبصرہ کیا ہے کہ عوام میں طاقت ہی نہیں ہے رگوں میں خون ہی نہیں ہے، اس ملک میں پچیس کروڑ لوگ بستے ہیں، لیکن صرف پچیس لاکھ لوگ مزے میں ہیں، گویا پچیس لاکھ لوگوں کے ملک میں پچیس کروڑ لوگ رہتے ہیں، اگرچہ وہ خود بھی ان پچیس لاکھ میں ہیں جن پر مسائل کا اثر نہیں ہوتا لیکن بات تو یہی ٹھیک ہے، اگر قربانی دینی ہے تو بڑے بزنس مین، بڑے زمیندار، کارپوریٹ سیکٹر، یہ سب ٹیکس دیں، عوام تو اب بھی قربانی دینے کو تیار ہیں جرنیل، جج حکمران سرمایہ دار اب قربانی دیں دنیا بھر میں ٹیکس وصول کرکے عوام کو سہولت دی جاتی ہے لیکن پاکستان میں ٹیکس خراج کی طرح لیا جاتا ہے اور سہولتیں خیرات کی طرح دیتے ہیں، اسلامی مملکت بھی جزیہ لیتی تھی تو ذمی کو تمام سہولتیں، جان و مال کا تحفظ اور انصاف، سب کچھ ملتا تھا، لیکن یہاں اکثریت پر اقلیت حکمران ہے اور سہولت نام کو نہیں، اگر یہ طبقہ خود قربانی نہیں دیتا تو قربانی تو اپنے وقت پر ہوگی اور وقت کے جبر کا مقابلہ کوئی جابر نہیں کرسکا۔ یہ بات اب تو ہر طرح سمجھائی جاچکی، اب بھی سمجھ میں نہیں آیا تو وقت ہی سمجھائے گا۔