ایم ایل ون منصوبہ، تاخیر کا شکار

232

پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے اہم ترین منصوبے، ایم ایل ون، فنانسنگ میں طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ہے۔ اس منصوبے کے تحت کراچی سے پشاور تک 1733 کلو میٹر طویل ریلوے ٹریک کو دو رویہ اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا شامل ہے، جس کے نتیجے میں ریل گاڑیاں 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکیں گی۔ یہ منصوبہ جس میں سگنلز اور ٹیلی کام کا جدید نظام بھی نصب کیا جانا ہے، پاکستان کے لیے نہ صرف تیز رفتار، محفوظ اور معیاری سفری سہولتیں فراہم کرے گا بلکہ ملک کی معیشت میں بھی گہرے اثرات ڈالے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایم ایل ون کی تکمیل کی طرف پیش رفت ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔ پاکستان نے چین سے متعدد بار درخواستیں کیں ہیں کہ مالیاتی کمیٹی کے اجلاسوں میں جلد از جلد اس قرض کی شرائط کو طے کیا جائے، مگر فی الحال نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ یہ تعطل قرض کے شرح کی وجہ سے کہا جارہا ہے۔ پاکستان نے قرضے پر 1 فی صد کی شرح سود کی درخواست کی تھی جبکہ چین 2.3 فی صد کی شرح سود پر قرض دینے پر مائل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم ایل ون جیسے اہم منصوبے میں درپیش تاخیر کے اسباب کا جامع جائزہ لیا جائے۔ تاخیر کی بنیادی وجوہات میں حکومتی عدم توجہ، مالی معاملات میں سست روی، اور وقتاً فوقتاً بدلتی ہوئی پالیسیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ منصوبے کے لیے مختلف تکنیکی اور مالی تخمینے کی طے شدہ تاریخیں بھی گزر چکی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ متعلقہ ادارے اس منصوبے پر صحیح وقت پر کام مکمل کرنے میں ناکام ہیں۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود، ایم ایل ون منصوبے کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل ہوتا ہے تو سفر کرنے والے لوگوں کو سہولت کے ساتھ اور معیشت میں ایک نیا انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ تیز رفتار ریل ٹریک ملک کے مختلف علاقوں کو آپس میں جوڑنے اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ کا سبب بنے گا، جس سے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی تجارت میں بھی اہمیت بڑھے گی۔ منصوبے کے مکمل ہونے سے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ میں بھی بہتری آئے گی اور سی پیک کے دیگر منصوبے بھی تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں گے۔ حکومت کو تاخیر کی وجوہات کا سنجیدہ جائزہ لینا چاہیے اور اس منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایم ایل ون جیسا قومی اہمیت کا حامل منصوبہ جلد پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔