سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور عدلیہ کی تشویش

185

سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ ریمارکس نے صوبے میں بدامنی اور ڈاکو راج کے مسائل کو ایک بار پھر عیاں کر دیا ہے۔ سندھ میں ایک طویل عرصے سے ڈاکو راج اور قانون کی دھجیاں اڑانے کی روایت برقرار ہے، اور سرداروں کے سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے یہ مسئلہ بڑھتا جارہا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور کی سربراہی میں عدالت نے جو ریمارکس دیے ہیں، ان سے سندھ کی پولیس کے کمزور کردار اور سرداروں اور طاقت ورلوگوں کے ہاتھوں قانون کی بے بسی کا اظہار ہوتا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر کے حالات کا یہ عالم ہے کہ اگر شہریوں کو یہاں سے نکلنے کا موقع ملے تو شاید کوئی یہاں رہنا نہ چاہے۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ سندھ میں سرداروں کی سرپرستی کی وجہ سے ڈاکو آزاد گھوم رہے ہیں اور پولیس ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ وکلا کی جانب سے درج کیے گئے 600 سے زائد مقدمات اور پولیس کی جانب سے کارروائی میں ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستی ادارے اپنی ذمے داریوں سے روگردانی کر رہے ہیں۔ سندھ میں ڈاکو راج کوئی نئی بات نہیں۔ 1970 کی دہائی میں اغوا برائے تاوان جیسے بھیانک جرائم نے صوبے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں، اور یہ روایت آج بھی برقرار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ سیاسی مفادات ہیں جو صوبے کے سرداروں اور وڈیروں کے ذریعے ریاستی اداروں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جسٹس پنہور کے ریمارکس کے مطابق پولیس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ بڑے لوگوں کو روک سکے یا ان کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کر سکے۔ اس کے برعکس، غریب عوام کے خلاف پولیس کا رویہ جارحانہ ہے۔ یہ دوہرے معیار انصاف اور قانون کی بالادستی کے اصولوں کے منافی ہیں اور ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ پولیس میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے تاکہ یہ ادارہ بلا تفریق کارروائی کرنے کے قابل ہو سکے۔ حکومت سندھ کو اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ طاقت ور بااثر افراد کے غیر قانونی کردار کو روکنا ہوگا، پولیس کو مضبوط بنانا ہوگا اور بدامنی کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔