میرے مرنے پر جتنا کہرام مچا تھا اْس سے کہیں زیادہ شورو غوغا میری قبر بنانے کی جگہ کے حصول کے لیے مچایا جانے لگا تھا۔ میرے عزیز اور رشتہ دار جس قبرستان میں بھی جاتے تھے وہاں کے گورکن اپنے دونوں ہاتھ بلند کرکے ’’جگہ نہیں ہے، جگہ نہیں ہے‘‘ کا نعرہ لگا دیتے تھے۔ اپنے عزیزوں کی بے بسی دیکھ کر مجھے جوش آگیا اور مَیں خود ہی اپنی قبر بنوانے کی جگہ تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑا ہْوا۔ دو چار قبرستان دیکھ لیے مگر وہاں بھی مجھے ’’جگہ ختم ہوگئی ہے‘‘ جیسی آوازیں سننے کو ملی اور مجھے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ تیسرے یا چوتھے قبرستان میں مَیں نے دیکھا کہ کچھ بوسیدہ اور شکستہ قبروں کے درمیان میں چند ایک نئی قبریں بھی بنی ہوئی ہیں، اْن قبروں کو دیکھ کر میرا دماغ پھڑکا اور دل میں حیرانی کی ہلچل پیدا ہوگئی کہ پرانی قبروں کے بیچ یہ نئی قبریں کیسے بن گئیں، اِن قبروں میں ضرور کوئی ہیر پھیر کی گئی ہے۔ تحقیق کرنے پر گورکن نے بتلانا شروع کیا، یہ قبر جو کل ہی بنی ہے، اْس شخص کی ہے جس کی بیوی پانچ برس پہلے فوت ہوئی تھی اور اِس جگہ دفن کی گئی تھی اب اِس قبر میں اْس کا شوہر مدفون ہے۔ دوسری قبر میں پہلے بیٹا دفن ہْوا تھا اب اْس کے باپ کو یہاں دفن کیا گیا ہے۔ تیسری قبر میں پہلے ماں دفن ہوئی تھی اب یہ اْس کی بیٹی کی قبر بن گئی ہے۔ جبکہ اِس چوتھی قبر میں ساس کے ساتھ اْس کی بہو نیچے اوپر سورہی ہے۔ یہ سارے معاملات ہم گورکن لوگ مرنے والوں کے عزیزوں سے صلاح مشورے سے اور اْن سے کچھ اضافی رقم لے کر ہی طے کرتے ہیں، پہلے مرنے والے کی ہڈّیاں قبر کی تہ کو مزید ایک بالشت کھود کر اْس میں دبادیتے ہیں اور یوں ہمیں ایک نئی قبر تیّار کرنے کی جگہ مل جاتی ہے۔
یہ قصّہ سناکر گورکن نے اِستفہامیہ انداز میں میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ’’تمہارا بھی باپ، بھائی یا ماں اور بہن میں سے کوئی ایک اگر یہاں دفن ہے تو وہ جگہ ہمیں بتلادو اْنہی قبروں میں سے کسی ایک قبر میں تم کو بھی ہم ڈال دیں گے۔ گورکن کی یہ باتیں سن کر میرے بدن میں جھرجھری سی پیدا ہوئی اور میرا وہ ہیجان انگیز خواب تحلیل ہوگیا جو نہ جانے مَیں کتنی دیر سے دیکھ رہا تھا۔ اب مَیں خواب کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آگیا تھا اور قبرستان میں جگہ دستیاب نہ ہونے کے معمّے پر غور کر رہا تھا۔ کافی غور و خوض کرنے کے بعد مَیں نے دل ہی دل میں گورکنوں کی تدبیر کی تائید کردی اور زیرِلب کہہ دیا کہ گورکن صحیح کر رہا ہے۔ لیکن ہنر کا یہ چرچا یا اظہار میرے ایک اکیلے کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ یہ بات تب بنے گی جب محراب و منبر پر بیٹھ کر وعظ و نصیحت کرنے والے علما آواز اْٹھائیں گے۔ علما اور دانشور عوام کو یہ بتلائیں کہ ہم مسلمان جس قبرستان میں دفن ہونے کی خواہش کرتے ہیں اْسے جنّت اْلبقیع کہتے ہیں جہاں کوئی ایک قبر بھی پختہ نہیں ہے پھر ہم نے یہاں پاکستان میں پختہ قبریں بنوانے کا رواج کیوں ڈال دیا ہے، ہم کہیں سفید سنگِ مرمر اور کہیں سْرخ پتّھر کی قبریں بنوانے یا بنانے کے تمنّائی کیوں رہتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم شاید غیر محسوس طریقے سے یہودیوں کی نقالی کرتے چلے آرہے ہیں۔ کراچی کا میوہ شاہ قبرستان غالباً اٹھارہ سو تیس عیسوی میں تشکیل پایا تھا یہاں یہودیوں کی پانچ ہزار قبریں ہیں جو سب کی سب پختہ ہیں زمانے کی گردش نے اْن قبروں کو اگرچہ توڑپھوڑ دیا ہے لیکن آثار بتلاتے ہیں کہ کچھ مقبرے تو محض پختہ ہیں لیکن زیادہ تر قبریں قیمتی پتّھروں کو تراش خراش کر بنائی گئی ہیں۔ کیا ہمیں یہودیوں کی نقل کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے؟