ٹرمپ کی واپسی اور ٹویٹر پت جھڑ

249

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا موسم پاکستان میںکچھ بااثر سیاسی ٹویٹر صارفین کے لیے خزاں بن کر جلوہ گر ہوا۔ جنہیں اپنے پرانے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑ رہے ہیں مگر ان کا المیہ یہ ہے کہ ٹویٹر کا مالک ایلون مسک جو انتخابی مہم میں ٹرمپ کا دست راست تھا ان ٹویٹس کا ریکارڈ رکھتا تھا۔ پاکستان میں پہلی بار کچھ سیاسی جماعتوں نے ٹرمپ کی رخصتی کو خواہ مخواہ اپنا مسئلہ بنایا اور آج یہی بات ان کے لیے پریشانی اور ہیجان کا باعث بن کر رہ گئی ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے بات بے بات ٹرمپ کی رخصتی کے حوالے دے کر اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ٹویٹس کی اس دنیا میں احسن اقبال کا ٹویٹ کفن پھاڑ کر اب بھی بولتا ہے جس میں انہوں نے ٹرمپ کی رخصتی پر مسرت کا اظہا کر کے یہ نوید سنائی تھی کہ ایسا ہی کردار پاکستان میں بھی اپنے انجام کو پہنچے گا۔ حیرت انگیز طور پر امریکی سفارت خانے نے عین اس کو ری ٹویٹ کرکے دونوں باتوں کی تائید کی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ کی رخصتی سے بہت پہلے امریکی اسٹیلشمنٹ نے خود اپنے ہی ملک میں رجیم چینج کا ذہن بنا رکھا تھا کیونکہ امریکی سفارت خانے کے اہلکاروںکا ٹرمپ کی رخصتی کے مسرت بھرے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنا معمولی بات نہیں تھا۔ اب ٹرمپ مخالف یہی ٹویٹس موجودہ حکمران کلاس کے گلے پڑ رہے ہیں۔ امریکا کے اندرونی معاملات پر ان غیر ضروری تبصروں کی اصل وجہ یہ تھی کہ امریکی مقتدرہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ناپسند کرنا شروع کر دیا تھا۔ مقتدرہ کو چین اور روس کے خلاف جنگی محاذ کھولنے کی جلدی تھی اور انہیں اس راہ میں کوئی رکاوٹ اور حرف انکار پسند نہیں۔

ٹرمپ امریکا کے عالمی اسٹرٹیجک کردار کے پر پرزے سمیٹ کر اسے واپس اپنے جامے میں لانے اور جنگوں کے بجائے کاروباری مسابقت کی طرف جا رہے تھے۔ ڈیموکریٹس اس معاملے میں سینٹ کام کے آگے خود سپردگی اختیار کرچکے تھے۔ مقتدرہ اور ڈیموکریٹس کا مفاد اور مقاصد ایک ہو کر رہ گئے تھے۔ یہیں سے پاکستان کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے یہ حقیقت پالی تھی کہ اب امریکا میں عوامی سیاست کا دور گزر گیا اور اب اس ملک پر کانگریس سینیٹ اور صدر کے پردے میں مستقل طور پر مقتدرہ کی حکمرانی قائم ہو گئی ہے۔ چونکہ مقتدرہ کے لیے ٹرمپ بیرونی دائرے کا غیر نصابی کردار تھا جس سے کسی بھی وقت کسی بھی بات اور قدم کی توقع کی جا سکتی تھی اس لیے مقتدرہ نے ہر قیمت پر مائنس ٹرمپ ذہن بنالیا تھا۔ مائنس ٹرمپ کی اس کوشش اور خواہش میں یہ رکاوٹ تھی کہ ٹرمپ کے ساتھ ذاتی طور پر عوام کا ایک حلقہ جڑ گیا تھا اور عوام میں اس کی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے مختلف انداز سے بیانیہ سازی کی جانے لگی تھی۔ مقتدرہ کی ٹرمپ سے اس نفرت کو بھانپتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں نے بھی ٹرمپ مخالف کشتی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ امریکا میں عوامی سیاست اور ووٹ کے ذریعے حقیقی تبدیلی کا کھیل اب ختم ہوگیا ہے۔ یہ اندازے کی ایک غلطی ثابت ہوئی۔ خود امریکی مقتدرہ بھی اپنے بھرپور وسائل کے استعمال کے باجود اس غلطی کا شکار ہوئی۔ ٹرمپ کی دلیری اور مائنس نہ ہونے سے انکار کی روش نے انہیں الگور کے انجام سے دوچار ہونے سے بچالیا۔ وہ اپنی مقتدرہ کی چالوں کے مقابل جم کر کھڑے ہوگئے اور یوں مقتدرہ کی ہر تدبیر ناکام ہوتی چلی گئی۔ پاکستان کی سیاسی شخصیات بھی اس بات پر ایمان لے آئی تھیں کہ اب امریکا میں اندرونی طورپر مقتدرہ ہی حکومت بنائے گی بلکہ باہر کی دنیا میں اقتدار کی تقسیم کا فیصلہ امریکی مقتدرہ ہی کر ے گی۔ اس مغالطے میں ان جماعتوں نے اپنا سارا سیاسی ورثہ، تاریخ عوامی حمایت، مقبولیت اور ساکھ خود اپنی مقتدرہ کے حوالے کر دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کی ان کی عوام میں مقبولیت اور قبولیت پانی میں نمک کی مانند تحلیل ہوتی چلی گئی۔

اُدھر عمران خان نے طاقت کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے مائنس ہونے سے انکار کر دیا جس سے ان کی عوامی مقبولیت کا گراف بڑھتا چلا گیا۔ طاقت کے ہاتھی اور مقبولیت کے اینا کونڈا کے درمیان لڑائی کا ایک دلچسپ کھیل شروع ہوگیا۔ طاقت کے ہاتھی نے مقبولیت کے اینا کونڈا کو ہر طرح سے دبانے اور مسلنے کی کوشش کی اور جواب میں اینا کونڈا نے طاقت کے ہاتھی کے گرد ایک عالمی گھیر ا ڈال دیا۔ کراچی، پنجاب اور خیبر پختون خوا سے ہوتی ہوئی بات امریکا اور برطانیہ جیسے طاقت کے مراکز تک پھیل گئی۔ جہاں جہاں پاکستانی موجود تھے وہ دوسری انتہا پر جا کھڑے ہوئے اور اس سے مقبولیت کے اینا کونڈا کا جال مزید مضبوط اور موثر ہوتا چلا گیا۔ ملک کے اندر مقبولیت نے ہر مخالف بیانیہ غیر موثر بنادیا تو باہر کی مقبولیت ایک نیا درد سر بن کر رہ گئی۔ اس کا ایک فیصلہ کن معرکہ آٹھ فروری کو ہوا جب عوام رسیاں تڑوا کر آلووں، بینگنوں، ٹماٹروں اور جوتوں کو ووٹ دینے نکل کھڑے ہوئے۔ اس عوامی لہر اور فیصلے کو روکنے کے لیے نیم شب کو جو کچھ ہوا وہ فارم سینتالیس کے فاول پلے کے طور پر تاریخ میں رقم ہو گیا ہے۔ کل تک سب کو یقین تھا کہ امریکی مقتدرہ طاقت کے کھیل میں جیت جائے گی اور ٹرمپ کو دوبارہ واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔ یہی وہ مغالطہ تھا جو امریکا کے افغانستان پر حملے وہاں مدت تک براجمان رہنے اور پھر نکلنے کے حوالے سے بھی رہا تھا۔ جنرل مشرف اس مغالطے کا شکار رہے۔ ان کے مطابق امریکا افغانستان میں کبھی شکست نہیں کھائے گا کیونکہ اس کے پاس دنیا کی خطرناک ترین ٹیکنالوجی اور مشینری ہے مگر پھر چشم فلک نہ یہ ہوتا دیکھا۔ اسی طرح پی ڈی ایم کے لوگوں کا خیال تھا کہ ٹرمپ امریکا میں مقتدرہ کی طاقت کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو ں گے مگر وقت نے اس تاثر اور یقین کو غلط ثابت کیا اور حیرت انگیز طور پر ٹرمپ اپنی مقتدرہ کو شکست دے کر واپس آگئے ہیں۔ حالانکہ سیاست میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں اور کوئی بھی انتھک سیاست دان عوامی طاقت یا ڈیل کی مدد سے کسی بھی وقت پانسہ پلٹ کر واپس آسکتا ہے۔ اندازے کی یہی غلطی اب پاکستان کی سیاسی شخصیات کی گلے کی پھانس بن گئی ہے اور انہیں پرانے ٹویٹس ڈیلیٹ کرنے کا ناخوش گوار فریضہ انجام دینا پڑ رہا ہے۔ کوئی ان پاکستانی سیاست دانوں سے پوچھے کہ امریکا کے مقبول لیڈر ٹرمپ اور امریکا کی عالمی طاقت کے مرکز ’’سینٹ کام‘‘ یا ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کی جنگ میں عبداللہ دیوانہ بن کر کودنے اور دھمالیں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ بصیرت سے محرومی کے نتیجے میں لمحہ ٔ موجود کے جھولے میں جھولتے چلے جانے کو ہی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت سمجھ کر فیصلے کرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔