اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پرلے سِرے سے دَوڑتا ہوا آیا اور بولا ’’موسیٰؑ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں، یہاں سے نکل جا، میں تیرا خیر خواہ ہوں‘‘۔ یہ خبر سنتے ہی موسیٰؑ ڈرتا اور سہمتا نکل کھڑا ہوا اور اس نے دعا کی کہ ’’اے میرے رب، مجھے ظالموں سے بچا‘‘۔ (مصر سے نکل کر) جب موسیٰؑ نے مَدیَن کا رْخ کیا تو اْس نے کہا ’’اْمید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا‘‘۔ اور جب وہ مَدیَن کے کنوئیں پر پہنچا تو اْس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں موسیٰؑ نے اِن عورتوں سے پوچھا ’’تمہیں کیا پریشانی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نکال کر نہ لے جائیں، اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں‘‘۔ (سورۃ القصص:20تا23)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ: رسول اللہؐ نے سوال کیا: ’’کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے یہاں مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور ضروری سامان زندگی نہ ہو، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ہماری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن روزہ، نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پہ تہمت باندھی ہو گی، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہوگا، اور کسی کو مارا ہو گا، پھر اسے سب کے سامنے بٹھایا جائے گا اور بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی، پھر اگر اس کے ظلموں کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوموں کے گناہ لے کر اس پر رکھ دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔ (جامع ترمذی)