ویلڈن نعیم الرحمان

409

ایوان صدر میں مسئلہ فلسطین اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے سلسلے میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے جس خوش اسلوبی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے بارے میں آگاہی فراہم کی اور جس احسن طریقے مسئلہ فلسطین کی نزاکتوں اور اس کی باریکیوں سے آگاہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کی گفتگو سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ایک ماہر اور منجھا ہوا جیورسٹ گفتگو کررہا ہے ان کی گفتگو کے دوران پوری کانفرنس میں ایک سکوت طاری ہوگیا تھا اور ہر فرد انتہائی غور سے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔ بے شک حافظ نعیم الرحمان نے آل پارٹیز کانفرنس میں فلسطینیوں کا مقدمہ عمدہ طریقے سے لڑا ان کی گفتگو میں ملت کا درد بھی تھا اور اس آزمائش سے نکلنے کا باعزت طریقہ بھی انہوں نے امریکا کی ریشہ داونیوں فریب، دھوکے کو بھی بے نقاب کیا اورعزت کے ساتھ جینے کا راستہ بھی دیکھایا۔

اس آل پارٹیز کانفرنس کے جتنے بھی شرکاء تھے وہ سب انتہائی قابل اور سب اپنی اپنی پارٹیوں کی نمائندگی کررہے تھے اس کے علاوہ صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں حافظ نعیم الرحمان نے حکومت پاکستان کی جانب سے اسلامی سرابراہ کانفرنس طلب کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کے فوجی سربراہوں کو بھی کانفرنس میں مدعو کرنے کا کہا انہوں پاکستان کی موجودہ اسٹرٹیجک پوزیشن کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کی۔ اس کے علاوہ حافظ نعیم الرحمان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی کھل کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بات کر نے کا کہا انہوں نے حکومت سے کہا کہ وہ حماس کو نہ صرف فلسطینی عوام کی نمائندہ جماعت تسلیم کرے بلکہ اسلام آباد میں حماس کا دفتر بھی قائم کیا جائے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دو ریاستی حل کی نہیں بلکہ صرف اور صرف آزاد فلسطین ریاست کے قیام کا موقف اختیار کیا جائے۔ ایک اسلامی نظریاتی اور نیوکلیئر ریاست ہونے کے ناتے پاکستان کی اولین ذمے داری ہے کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر پر موثر اور جاندار کردار ادا کرے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف حکمت عملی کی تشکیل کے لیے خصوصی طور پر سعودی عرب اور ایران سے رابطے کیے جائیں۔ انہوں نے آل پارٹیز کانفرس کے شرکاء کو آگاہ کیا کہ غزہ میںگزشتہ ایک سال میں اسرائیلی جارحیت کے دوران پچاسی ہزار ٹن بارود پھینکا گیا۔ اسی سے نوے فی صد شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، لگ بھر دس ہزار لوگ ملبے تلے دفن ہیں، 43 ہزار شہادتیں ہوئیں جن میں تیس ہزار بچے اور خواتین ہیں۔ اسرائیل نے سیکڑوں صحافیوں، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو قتل کیا، جینوا کنونشن کے مطابق غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔ ہمیں ان حالات میں بطور ریاست اس انسانیت سوز مظالم پر ڈٹ کر فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ دو ریاستی حل کی تجاویز پاکستان اور اس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے تاریخی اور دیرینہ موقوف سے روگرانی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے بعد ایران، لبنان اور یمن پر بھی حملہ کر دیا ہے۔ اسرائیل کو امریکا اسلحہ فراہم کررہا ہے اور گزشتہ پانچ برسوں میں واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کو 310 بلین ڈالر کی براہ راست مدد فراہم کی گئی، اسرائیل کا 80 فی صد اسلحہ امریکا کا فراہم کردہ ہے جو ہمارے بچوں کے قتل کے لیے استعمال ہورہا ہے اگر آج فلسطین کے بچے شہید ہورہے ہیں تو حکمران جان لیں کہ یہ سلسلہ کل ان کے بچوں تک بھی پہنچ جائے گا، یہ سلسلہ روکنا ہوگا، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ معیشت کا مسئلہ ہے، ہمارا موقف ہے کہ آج معیشت اس دور سے کمزور نہیں جب بانی پاکستان نے اسرائیل کو مغرب کی ناجائز اولاد قرار دے کرکہا تھا کہ اسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ہمیں امریکا کے دبائو میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ پر بھروسا کرکے مظلوموں کی مدد کا اعلان کیا جائے۔ معیشت کے راستے خودبخود کھل جائیں گے۔ اسلام دشمن قوتیں اس وقت شیعہ سنی فرقہ واریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اسرائیلی میزائل شیعہ سنی کی تفریق کیے بغیر سب کو نشانہ بنا رہا ہے اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادتیں اس کی مثال ہیں۔ امت کے لیڈران متحد ہوکر غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کریں۔ فلسطینی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ مجوزہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں آرمی چیفس کو بھی مدعو کیا جائے اور ان کے ساتھ پلاننگ کی جائے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا راستہ کیسے روکنا ہے۔

بلاشبہ امیر جماعت اسلامی پاکستان کی اے پی سی میں کی گئی تقریر پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے دلوں کی آواز ہے حافظ نعیم الرحمان نے پوری امت کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیا ہے اور کھل کر مظلوم فلسطینیوںکا مقدمہ لڑا ہے اور ان تمام مسائل کی نشان دہی کی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد بنا ہوا ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے بالکل درست کہا کہ مسئلہ فلسطین پر پوری امت کو اب متحد ہونا چاہیے اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے مسئلہ فلسطین پر بلائی جانے والی اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ ایک بہترین پیش رفت ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی قیادت فوری طور پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کی گزارشات پر سنجیدگی کے ساتھ ناصرف یہ کہ غور کرے بلکہ اس پر عمل بھی کیا جائے ورنہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم اور عزائم ایران کے بعد پاکستان اور افغانستان کی جانب ہی جائیں گے اور ایک ایک کو وہ تنہا کر کے اپنا ترنوالہ بنائے گا اور پھر داستاں بھی نہ ہوگی ہماری داستانوں میں۔