حکومت اس کے اتحادیوں اور سرپرستوں کو ملک کے آئینی نظام پر شب خون مارنے کی بھرپور کوشش کے باوجود شدید ناکامی ہوئی اور دودن کی سر توڑ کوشش کے باوجود آئینی ترمیم پیش کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ گزشتہ کئی روز سے جو کچھ ہورہا تھا وہ سب عوام کے مفاد کے نام پر کیا جارہا تھا اور کوئی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ آئینی ترمیم سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا ، بہت واضح نظر آرہا تھا کہ پارلیمان کے لوگ کسی خاص مقصد ،کچھ خاص لوگوں کو فائدہ یا خاص لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اتنی محنت کررہے تھے۔ یہ لوگ کبھی کوئی سڑک بنوانے کیلیے اور پانی کا نلکا لگوانے کیلے بھی اتنی محنت نہیں کرتے ، ان سے عوام کیلیے قانون میں اتنی اہم ترمیم کیلیے سرگرم ہوجانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس سے قبل موجودہ حکمران ٹولے ، نام نہاد اپوزیشن بشمول پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم ،مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے جتنی بھی آئینی ترامیم کیں وہ سب کسی کو فائدہ پہنچانے یا کسی کو نقصان پہنچانے کیلیے کی تھیں، اٹھارہویں انیسویں سے لے کر پچیسویں ترمیم تک سب چند گھنٹوں میں کھڑے کھڑے منظور ہوگئیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ بھی اتفاق ہے کہ ایک ہی دن قبل امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا تھا کہ حکمرانوں کا مسئلہ مرضی کے ججوں، جرنیلوں کی مدت ملازمت میں توسیع کراناہے،جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی بات کرنے والے پارلیمنٹ کو بے توقیر کررہے ہیں ،ایوان میں اکثریت عوامی رائے سے نہیں بلکہ طاقت ، دولت اور اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار بن کر آنے والوں کی ہے، اسلام آباد میں منڈیاں لگاکر توسیع لینا روایت بن چکی ہے،ان کے اس تبصرے کے بعد اور اتوار اور پیر کی درمیانی رات،پیر کی صبح سے شام تک جس قدر بھاگ دوڑ کی گئی اور جس قدر محنت کی گئی اس کو دیکھ کر ان ارکان پارلیمان کے حلقوں کے عوام حلفاً کہ سکتے ہیں کہ یہ سب بھاگ دوڑ ہمارے لیے تو نہیں کرسکتے ، یہ ساری کسی کے اشارے پر کی گئی ہے،جس طرح حکومت سازی میں، تحریک عدم اعتماد میں اور جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع میں ارکان کی منڈی لگی تھی اسی طرح دو روز سے لگی ہوئی تھی اب تو عام آدمی بھی اسے سودے بازی ہی سمجھتا اور کہتا ہے۔یہ کس کو دھوکا دے رہے تھے کہ سب کچھ پچیس کروڑ عوام کے لیے تھا، ہوسکتا ہے پچیس کروڑ تک تو بات درست ہو یہ لوگ پچیس لاکھ سے پچیس کروڑ تک میں بکنے والے ہیں، عوام کیلیے کچھ کرنیوالے نہیں۔جتنے لوگ اتوار اور پیر کو ناراض اور شیرو شکر نظر آرہے تھے ان سب نے پارلیمنٹ کے ہاتھ پاوں خود کاٹے تھے ، ان ہی لوگوں نے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دی ،جماعت اسلامی نے نہیں دی،ا س پر حافظ نعیم نے بجا طور پر کہا کہ اس طبقے کے خلاف متحد اور منظم ہو کر جدوجہد کی ضرورت ہے، ملک کو امن ،جمہوری آزادی ،سستی بجلی اور مضبوط معیشت کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ طبقہ اب محض الیکشن ووٹ اور اسمبلی اسمبلی کھلنے سے نہیں سدھرے گا بلکہ اس کے لیے عوام کے ہر طبقے کو نکلنا ہوگا۔ اور نکلنا بھی اس طرح ہوگا کہ کوئی رکاوٹ انہیں نہ روک سکے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسے تو قانون ہاتھ میں لینا کہا جائے گا ، بالکل یہ قانون ہاتھ میں لینا ہی ہے ، لیکن اب تو سب بار بار دیکھ چکے کہ جن کو قانون کا رکھوالا سمجھ کر ان کے ہاتھوں کو محفوظ سمجھ کر قانون ان کے ہاتھوں میں دیا گیا تھا انہوں نے ہی اس قانون کو کھیل بنا لیا۔ ان کے ہاتھ میں آئین ہی کھیل ہے جو جیسی چاہے آئیں کی تشریح کرے۔ تو پھر جن لوگوں یعنی عوام کے لیے آئین اور قانون بنا ہے وہ خود کیوں نہ اسے ہاتھ میں لے لیں۔ یقینا اس میں کئی قباحتیں ییں، اور ہمارے حکمران اب یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ آئین اور قانون کے ساتھ کھیل کا کیا انجام کیا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جلد بازی میں یہ ترمیم کرنا اتنا ضروری تھا کہ اتوار کا پورا دن اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان حاضر رہے تو پیر کے روز اسی آئینی ترمیم کو منظور کیوں نہیں کیا عوام کا مفاد تھا تو راتوں رات منظور کرنے پر تلے ہوئے تھے اور اب اچانک عوام کے مفاد میں ہونے والی ترمیم غیر معینہ عرصے کے لیے ملتوی کردی ۔ کمال لوگ ہیں۔