ابہام کون پھیلاتا ہے

253

پاکستان میں حکمرانوں اور ان کے سہولت کاروں کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی قیمتیں ہیں نہ مہنگائی نہ پیٹرول اور نہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور نہ شہریوں کا تحفظ، بلکہ ان کا اصل مسئلہ بعض افراد کو سامنے رکھتے ہوئے بعض کو فائدہ پہنچانے اور بعض کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے ، آجکل بھی سارا زور ایک آئینی ترمیم پر صرف کیا جارہا ہے جس کا فائدہ پچیس کروڑ لوگوں کو نہیں چند لوگوں کو ہو گا اور نقصان پوری قوم بھگتے گی۔اس آئینی ترمیم اور چند لوگوں کی اس لڑائی کی وجہ سے ادارے بھی آمنے سامنے کھڑے ہیں ،پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ اچانک جاری کر کے دھماکا کردیاگیا ہے، الیکشن کمیشن نے اس کے خلاف موقف اختیار کیا ہے اور فیصلے پر عملدرآمد سے انکار کردیا ہے۔ بلا شبہ الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ کہلاتا ہے۔ آئینی طور پر اسے خود مختار ہی کہتے ہیں اور پارلیمنٹ کو بھی خود مختار کہتے ہیں اور عدلیہ کو بھی لیکن ان سب کی خود مختاری آئین کے دائرے میں ہونی چاہئے، جبکہ ان میں سے کوئی ادارہ آئین کے دائرے میں نہیں رہتا نت نئی آئینی تاویلیں گھڑی جاتی ہیں، اور یہ سب کسی نہ کسی درجے میں اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتے ہیں ، اختیارات کا مرکز یہی تینوں ادارے ہیں اور طاقت کا مرکز کہیں اور ، پھر جو کچھ ہوتا ہے وہ ملک کی تباہی کا سبب بنتا ہے اسی رویے کے نتیجے میں آئینی ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ کے حکم نے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کردیں، سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے وضاحتی حکم نامے میں کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے ارکان اسمبلی پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، انتخابی نشان سے محرومی کسی سیاسی جماعت کے حقوق کو ختم نہیں کرسکتی ہے، پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے اسکے ارکان کے سرٹیفکیٹس کو تسلیم نہ کرنا سراسر غلط ہے، الیکشن کمیشن بیرسٹر گوہر کو چیئرمین تسلیم کرچکا ہے، 12جولائی کے مختصر فیصلے میں کوئی ابہام نہیں تھا، الیکشن کمیشن نے اسے پیچیدہ بنایا۔ اس میں کیا ابہام تھا وہ تو بعد میں زیر غور آئے گا عدالت کی خبر سے پیچیدگی عیاں ہے۔ (سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں (پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) اراکین کی بنیاد پر تخلیق پانے والی خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کے بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن /پشاو رہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائرکی گئی سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں کے خلاف جاری 12 جولائی کے مختصر فیصلہ سے متعلق ابہام کی درستگی کے لیے دائر کی گئی الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کی متفرق درخواستوں کی ان چیمبر سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ) اس کو عام آدمی کیا سمجھے گا اور اس الجھے ہوئے معاملے کو کیسے سلجھایا جائے گا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ، عدالت کے آٹھ ججوں کی جانب سے جاری مختصر اکثریتی فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیز پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، عدالت کا 12جولائی کا مختصر فیصلہ بہت واضح ہے، جسے الیکشن کمیشن نے غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنادیا ہے، یہاں ایک ادارہ دوسرے پر الزام تراشی اور تنبیہ کررہا ہے کہ ، عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کنفیوژن پیدا کرنے کی کوششوں کوسخت الفاظ میں مسترد کیا جاتا ہے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو اس فیصلے پر فوری طور پر عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس فیصلے پرعدم عملدرآمد کی صورت میں اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، بیرسٹرگوہرعلی خان کو پارٹی چیئرمین تسلیم کرنے کے بعد الیکشن کمیشن اپنے موقف سے پھر نہیں سکتا ہے، یہ معاملہ صرف اس لیے الجھا ہے کہ ایک ادارہ ہر قیمت پر کسی کو سامنے رکھ کر فیصلے کررہا ہے اور دوسرا ہر قیمت پر اس ادارے کے خلاف فیصلہ دینے پر مصر ہے ، دونوں کے پیچھے کوئی طاقت ضرور ہے یا اداروں کا تصادم ہے قوم سوال کرسکتی ہے کہ سیدھے سادے معاملات کو اتنا پیچیدہ کون بناتا ہے ، لیکن مشکل یہ ہے کہ قوم سوال نہیں پوچھتی ، یہ سیاستدان ، اداروں کے سربراہ اور ذمہ داران، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے متعلق لوگ اسی ملک میں رہتے ہیں جہاں ملیں سوال کریں ، ابہام خود دور ہوجائے گا۔سب نے قانونی نکات سے کھیلنے اور آئین سے کھیلنے کا فیصلہ کررکھا ہو تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا۔ ملک چلانے والے نام نہاد دسیاستدان ، عدلیہ، اور فوج المعروف اسٹیبلشمنٹ کون معاملات آئین کے مطابق چلارہا ہے ، اس کے بعد بھلائی کی توقع رکھنا دیوانے کی بڑ تو ہو سکتی ہے کچھ اور نہیں۔ عدالت کی جانب سے فیصلے نے عدالتی آئینی ترمیم کے حکومتی عزائم میں رکاوٹ ڈالی اور اتوار کو صبح واردات نہ ہو سکی۔ جس کے بعد سارا دن پارلیمنٹ میں رونق رہی ، جوڑ توڑ جاری رہا ، اور اگر دیکھا جائے تو سارا عمل بدنیتی پر مبنی ہے ، اور ایسے فیصلوں سے ملک کا کوئی بھلا نہیں ہوگا۔ یہ رویہ انارکی کی طرف ملک کو دھکیل رہا ہے۔ ایسے میں بنگلادیش کی صورتحال کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔