قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

203

انہوں نے جواب دیا ’’کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں نے اختیار کی ہے؟‘‘۔ نوحؑ نے کہا ’’میں کیا جانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں۔ ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے، کاش تم کچھ شعور سے کام لو۔ میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو ایمان لائیں ان کو میں دھتکار دوں۔ میں تو بس ایک صاف صاف متنبہ کر دینے والا آدمی ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’اے نوحؑ، اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا‘‘۔ نوحؑ نے دعا کی ’’اے میرے رب، میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا۔ (سورۃ الشعراء:111تا117)

ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ فرمایا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟، اس نے عرض کیا نہیں! فرمایا: کیا تمہاری خالہ ہے؟ عرض کیا: جی ہاں! ارشاد فرمایا: ’’تو جاؤ اور ان کی خدمت کرو‘‘۔ (جامع ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تہجد ضرور پڑھا کرو، یہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ رہاہے، اس سے تمہیں اپنے ربّ کا قرب حاصل ہو گا، گناہ معاف ہوں گے اور گناہوں سے بچتے بھی رہو گے۔ (مستدرک حاکم)